ہیں۔ کیا معلوم اس میں تزکیہ کی روح ہے بھی یا نہیں، اور جو لوگ ہمہ تن شوق ہو کر آئیں اور ان کا دل خشیتِ الٰہی سے معمور ہو، آپ اس سے بے نیازی برتتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات پر حکیمانہ تنقید فرمائی گئی ہے۔ بشری تقاضوں کی وجہ سے جہاں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا جو ملأ اعلیٰ کے مصالح کے خلاف تھا، وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ دلا دی گئی، تاکہ پیغمبر کی صوابدید ملأ اعلیٰ کے منشا کے موافق ہو جائے۔
کتنا معمولی واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض قریشی رؤساء سے گفتگو فرما رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی آرزو تھی کہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچیں۔ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے اپنی معتاد بے تکلفی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کو اپنی طرف پھیرنا چاہا۔ آدابِ مجلس کا تقاضا تھا کہ جب تک پہلی گفتگو ختم نہ ہو جائے، دوسری طرف توجہ نہ فرمائی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قاعدہ کے مطابق عمل کیا۔ انسانی آداب اور آئینِ مجلس کے لحاظ سے اس میں کوئی غلطی نہ تھی مگر یہ اصول پسندی عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایسے مخلص کی دل شکنی کا موجب ہوئی جسے آسمان پر بھی ناپسند فرمایا گیا اور ارشاد ہوا کہ ہدایت کی امید پر ان لوگوں کو نظر انداز نہ فرمایا جائے جن پر اللہ تعالیٰ کی نوازش ہو چکی ہے اور ان کے دل خشیتِ الٰہی سے معمور ہو چکے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومیہ معمولات پر یہ کتنا بڑا احتساب ہے، حالانکہ ایسے واقعات ایک مبلغ کی زندگی میں آئے دن پیش آتے ہیں اور اسے حفظِ مراتب اور آدابِ مجلس کا یومیہ بارہا لحاظ رکھنا ہوتا ہے، تاکہ اس کی زندگی معاشرہ میں اجنبی اور عجوبہ تصور نہ کی جائے، لیکن یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آزاد نہیں چھوڑا گیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم
ایک سیاسی نوعیت کا واقعہ:
﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰه يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللّٰه عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللّٰه سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾﴾ (الانقال: 67، 68)
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر پیغمبر کے پاس قیدی آ جائیں تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔ یہاں کوئی دنیوی مفاد پیشِ نظر رکھنا مناسب نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق
|