عزت نفس کے خلاف تھا۔‘‘
جس دوسری حدیث کو آپ نے صحیح مانا ہے، جو بواسطہ امام مالک رحمہ اللہ تیمّم کے متعلق مروی ہے، اس غزوہ میں بھی ہار موجود تھا۔ ’’بعض أسفاره‘‘ سے مراد ’’غزواته‘‘ ہونا چاہیے، طحاوی کی روایت بواسطہ ابن لہیعہ میں ’’غزواته‘‘ کی تصریح ہے۔
پھر یہ ہار بھی مستعار تھا، جب عاریت کا ذکر زہری کی روایت میں آ جائے، تو روایت درایتاً موضوع، جب عاریت کا ذکر ہشام کی روایت میں آئے، تو روایت درایتاً صحیح۔ اشخاص سے دشمنی ہے یا کسی اصول کا تتبع؟
’’حَدَثْنَا زَكريا بْن يَحييٰ قَالَ حَدَثْنَا عَبْدُ اللّٰه بن نمير قَالَ حَدَثْنَا هشَّام بن عرْوَة عَنْ أَبِيْه عَنْ عَائِشَة أنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِن أسْمَاءَ قِلَادَةً فَهَلَكَتْ، فَبَعَثَ رَسولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عليه وسلَّمَ فِيْ طلبها ۔۔الخ‘‘ (پ: 2، 1/219) [1]
’’میں نے ہار عاریتاً لیا تھا، جو اس سفر میں گم ہو گیا۔‘‘
وضع کے یہ دونوں قرائن حدیثِ تیمّم میں موجود ہیں۔ یہ امام مالک اور ہشام بن عروہ سے مروی ہیں، جسے آپ نے صحیح مانا ہے۔ (طلوع: 50)
عمادی صاحب! ائمہ حدیث کے خلاف لکھنا آسان نہیں، یہ طلوع اسلام کا دفتر نہیں، جہاں پر جہالت اور حماقت کا عنوان ’’مخصوص انداز‘‘ ہے۔ [2] آپ کے ان قرائن کو قبول کر لیا جائے تو نہ قرآن عجمی سازش سے بچتا ہے نہ حدیث۔ اس درایت کو حماقت کے مترادف سمجھنا چاہیے!
ہفتم:
اس قرینہ کا ماحصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اثناءِ سفر میں بالکل نظر انداز کر دیا۔ نماز وغیرہ کے اوقات میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق دریافت نہیں فرمایا۔
|