Maktaba Wahhabi

619 - 676
طحاوی کی ایک روایت سے خیال ہوتا ہے کہ یہ کوئی دوسرا ہی سفر تھا: ’’ قالت‏:‏ أَقْبَلْنا معَ رسولِ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلّم من غزوة له، حتى إذا كنا بالمُعَرَّسِ- قريباً من المدينة- نَعَسْتُ من الليل، وكانت عليَّ قِلادةٌ، تُدْعَى السِّمْطَ تبلغ السّرَّةَ، فجعلت أَنْعس فخرجَتْ من عُنُقي، فلما نزلتُ مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلّم لصلاة الصبح، قلت‏:‏ يا رسول اللّٰه ، خرّت قِلادتي من عُنُقي‏.‏ فقال‏:‏ أيها الناسُ، إنَّ أُمَّكم قد ضَلَّت قِلادتَها فابتغوها ‘‘ (معاني الآثار: 1/66) ’’ہم کسی غزوہ سے واپسی پر مدینہ کے قریب نماز صبح کے لیے اترے۔ رات کو اونگھنے میں میرا ہار، جو ناف تک لمبا تھا، میرے گلے سے نکل گیا، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا ہار گم ہو گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تمہاری ماں کا ہار گم ہو گیا ہے، تلاش کرو، چنانچہ ہار مل گیا۔‘‘ اس حدیث میں نہ زہری ہیں نہ ابن اسحاق، البتہ ابن لہیعہ [1] ہیں۔ بقول عمادی صاحب یہ بھی بڑے چالاک نکلے، نہ غزوہ کا نام لیا ہے نہ رات کے متعلق بتایا کہ رات چاندنی تھی یا اندھیری رات؟ نہ یہ بتایا ہے کہ لڑائی میں کتنے آدمی شریک تھے؟ نہ یہ بتایا کہ تلاش کے لیے کون کون گیا؟ نہ یہ بتایا ہے کہ ہار کس کو ملا اور کتنی جستجو کے بعد ملا؟ اور اس چالاک راوی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ صبح کتنے بجے ملا اور راوی کیسے گیا؟ اور راوی نے یہ بھی چالاکی کی ہے کہ پتہ نہیں دیا کہ ہار سونے کا تھا یا چاندی کا یا جزع کا؟ اور چالاکی ملاحظہ ہو کہ یہاں ذات الجیش کی بجائے معرس کہہ دیا ہے! عمادی صاحب قبلہ! آپ بھی معذور ہیں۔ اپنی عقل درست نہ ہو تو ساری دنیا چالاک بن جاتی ہے، ورنہ رواۃ بے چارے متدین تھے۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ ایسے عقل مند آئندہ درایت کی آڑ میں اس طرح حملہ آور ہوں گے۔ آپ کی مسکنت تو آپ کی درایت سے ظاہر ہے! آپ فرماتے ہیں: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جہاد میں رہیں، ان کو ہار کی کیا ضرورت تھی اور پھر عاریتاً لینا تو
Flag Counter