Maktaba Wahhabi

618 - 676
رہے ہیں، رات کے وقت کوچ کا وقت بھی اسی محمد بن اسحاق کی روایت میں مرقوم ہے: ’’حتي إذا كان قريباً من المدينة نزل منزلا فبات به بعض الليل ثم آذن في الناس بالرحيل ‘‘ (أيضاً: 2/220) ’’مدینہ منورہ کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا، رات کا کچھ حصہ آرام فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا اعلان فرمایا۔‘‘ ظاہر ہے کہ پڑاؤ کرنے کے بعد قافلہ سو جائے، تو وہ کوچ آخر شب ہی کو کر سکتا ہے اور اس سفر میں منافقین کی شرارت کے سبب ایک موقع پر پورے چوبیس گھنٹے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کی اجازت نہیں دی۔ [1] ایسے حالات میں نیند اور سفر کی کوفت کا تقاضا ہے کہ ساتھی آرام کر لیں۔ عمادی صاحب فرماتے ہیں: ’’راوی بڑا چالاک ہے، اس نے یہ نہیں بتایا کہ چاندنی رات تھی یا اندھیری رات تھی؟‘‘ عمادی صاحب! اگر عقل کو چور نہیں لے گئے، تو اتنا سوچئے کہ یہ بھی کوئی وضع کی دلیل ہو سکتی ہے؟ تیمّم کے متعلق آپ نے جس حدیث کو صحیح مانا ہے، رات کی کیفیت اس میں بھی مرقوم نہیں۔ صرف ہار مل جانے کا وقت مرقوم ہے۔ آپ عقل کا علاج کرائیے! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مجھے ہار مل گیا۔ سو اب اس حماقت نوازی سے کیا فائدہ کہ دانے بکھرنے یا نہیں؟ ہار کہاں سے ٹوٹا؟ ہاتھ تو آلودہ نہیں ہوا؟ اس یاوہ گوئی کا نام آپ کے ہاں درایت ہے؟! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دو دفعہ گم ہوا ہے، ایک دفعہ بنی المصطلق میں، دوسرا واقعہ غزوہ ذات الرقاع میں ہوا۔ سید صاحب کا خیال ہے دوسرا واقعہ بھی اس سفر میں ہوا۔ اگر یہ خیال درست ہو تو ظاہر ہے کہ ہار کی لڑیاں کمزور تھی، سید صاحب کی سی دقت نظر آپ کو کہاں نصیب؟ رہے آپ کے شبہات، وہ تار عنکبوت ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غیب دان نہیں تھیں، جو معلوم ہوتا کہ ہار ٹوٹ جائے گا، تو ہار گوندنے کا سامان لے کر چلتیں اور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ایسے عقل فروش اصحاب سے سابقہ پڑے گا!
Flag Counter