واقعہ افک کے متعلق نئی تمنائی ریسرچ
تاریخی حقائق و واقعات کی روشنی میں
چند دن ہوئے ایک دوست نے ’’طلوع اسلام‘‘ (اگست، ستمبر 1964ء) کا مجموعی نمبر ارسال فرمایا۔ اس میں ’’مولانا‘‘ تمنا عمادی کا ایک مضمون حدیث افک کے متعلق مرقوم ہے۔ عمادی صاحب کا خیال ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے، یہ عجمی سازش کی پیداوار ہے۔ باوجودیکہ یہ حدیث، صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی، مسند احمد، ابو عوانہ، مسند بزار اور مستند دواوین حدیث میں منقول ہے، لیکن عمادی صاحب کو اصرار ہے کہ یہ حدیث [1] متواتر بھی ہو، تو بھی وہ اسے موضوع ہی فرمائیں گے۔ علم کا زور ہے، حضرات ’’علماء‘‘ جب کرنے پر آئیں، تو وہ حق کو باطل اور باطل کو ایک لمحہ میں حق کہہ سکتے ہیں!
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آج سے پہلے متواترات کا انکار یا انہیں ظنیات کا ہم مرتبہ کہنا صرف فرقہ سمنیہ کا خیال تھا۔ اب یہ مدعیان قرآن سمنیہ کی صفوں میں کھڑے ہو رہے ہیں۔ فرقہ سمنیہ براہمنوں سے ملتا جلتا ہے۔ قدرت کی نیرنگی ملاحظہ ہو، براہمنوں کو تائید کے لیے چودھویں صدی کے گندم نما جو فروش مل گئے، جو قرآن کی آڑ لے کر تواتر اور عقل کو بھی خیر آباد کہہ رہے ہیں!
مضمون کے تین حصے:
پیش نظر مضمون کے تین حصے کیے جا سکتے ہیں:
(1) حدیث پر روایتاً بحث۔
(2) درایتاً بحث۔
|