Maktaba Wahhabi

436 - 676
یادداشتیں تھیں، جو پوری کی پوری صحاح میں آ گئیں۔ان میں ترتیب تھی نہ جامعیت اور نہ تبویب، مثلاً محمد بن اسحاق نے مغازی اور سیرت کے موضوع پر لکھا اور اس کا ضروری حصہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مغازی میں لے لیا۔ باقی سیرت ابن ہشام آپ کے پاس موجود ہے، اگر آپ حضرات کو منظور ہے کہ اسے صحاح کا مقام دیا جائے، تو بسم اللہ! اہل قرآن کے مدارس میں اسے رکھ دیجیے، ان شاء اللہ آپ کو اسی سے صحاح کی افادی حیثیت معلوم ہو جائے گی۔ اُف! کتنا ظلم ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’سنن کبریٰ، بیہقی، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، سنن دارمی، ان کو کیوں ترک کیا گیا؟‘‘ مگر آپ کے اصول کے مطابق یہ بھی ایرانی تھے۔ بیہق، سمرقند اور بست سب عجمی شہر ہیں۔ ان کو صحاح میں شامل نہ کیا گیا، اعتراض کرتے وقت کچھ تو سوچنا چاہیے۔ قلم اگرچہ عقل مند نہیں، مگر انسان تو عقل مند ہے! حقیقت اتنی ہے کہ صحاح کے تعین میں تعلیمی محاسن اور نصاب کے تقاضے وغیرہ امور پیش نظر رہے، اس لیے نہ مسند احمد میں آ سکی، نہ مسند شافعی، نہ سنن کبریٰ آ سکی اور نہ مستدرک حاکم۔ اللہ تعالیٰ سائل محترم کو عجم خولیا اور ایران خولیا سے بچائے، اس مرض کا حملہ سب سے زیادہ قوتِ فکر پر ہوتا ہے۔ مگر یہ موضوع بسط کا متقاضی ہے، جس پر فرصت میں لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ شیعوں کی صحاح: سائل محترم نے چلتے چلتے شیعہ کی صحاح اربعہ کا تذکرہ کر دیا، حالانکہ مولانا کو خوب معلوم ہے یہ نظیر ان کے خلاف جاتی ہے۔ اگر یہاں عجمی سازش ہوتی، تو خود عجمیوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ صحاح ستہ کی بجائے نصاب صحاح اربعہ مقرر ہوتا، کیونکہ عجمی تہذیب کی ترجمانی صحاح اربعہ میں بہت زیادہ ہے اور ان کے مسائل میں عجمیت کا عنصر غالب ہے۔ نیز مرفوع حدیث کا سرمایہ صحاح اربعہ میں کم ہے۔ وہ عموماً امام جعفر پر موقوف روایات ہیں۔ ضد سے ان کو صحاح کا ہم پایہ قرار دیا گیا، دونوں طرف کی کتابیں پڑھنے کے بعد طالب حق خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ صحاح اربعہ حدیث ہے یا نہیں؟ صورت جو بھی ہو، صحاح اربعہ کا وجود عجمی سازش کا واضح جواب ہے۔
Flag Counter