Maktaba Wahhabi

203 - 676
ظن کیا ہے؟ (1) فقہ میں ظن کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ظن بمعنی یقین بھی استعمال ہوا ہے: ﴿وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللّٰه فِي الْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَبًا﴾ (سورۃ الجن) [1] ’’ہمیں یقین ہے کہ ہم خدا کو زمین میں عاجز اور بھاگنے میں کمزور نہیں کر سکتے۔‘‘ (2) احتمال راجح پر بھی ظن کا لفظ استعمال ہوا ہے: ﴿وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ﴾ (سورۃ القیامۃ) [2] ’’اور اسے جدائی کا ظن غالب ہو جاتا ہے۔‘‘ (3) اور شک اور توہم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے: ﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ﴾ (سورۃ الانبیاء) [3] ’’ذوالنون جب قوم سے ناراض ہو کر نکلے، تو ان کو خیال تھا کہ ہم انہیں کسی مشکل میں نہیں ڈالیں گے۔‘‘ (4) ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا[4] یہاں ظن شک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی لفظ ’’ظن‘‘ بہت سے معانی میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن عزیز کا طالب علم تھوڑی سی توجہ سے ان مواقع اور قرائن کو پا سکتا ہے، جہاں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔ راغب نے ’’مفردات‘‘ میں ظن کے متعلق ایک قاعدہ ذکر فرمایا ہے۔ [5] اس لیے حدیث کے متعلق اگر ائمہ نے کہیں لفظ ظن استعمال کیا ہے، تو نہ اس سے گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی خوشی کا مقام ہے۔ اگر ائمہ کی نظر میں حدیث کی ظنیت شک و تہمت کے معنی میں ہوتی تو وہ یقیناً اس کی حجیت سے انکار کر دیتے، حالانکہ امت قاطبتاً حدیث کو حجت سمجھتی
Flag Counter