Maktaba Wahhabi

551 - 676
گیا۔ نماز اس سے بہت پہلے مکہ معظمہ میں فرض ہوئی۔ معلوم ہے کہ سالہا سال تک نماز بے وضو تو ادا نہیں ہوتی رہی، ظاہر ہے کہ وضو کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحیِ سنت کے طور پر بتا دیا گیا تھا۔ 6 ہجری میں قرآن حکیم نے اس حکیم کی تائید فرما دی۔ معذوریاں انسان کے لوازم سے ہیں۔ عرب کی سرزمین میں پانی کی قلت معمولات سے ہے، بیماریاں بھی کسی قاعدہ کی پابند نہیں۔ معلوم ہے کہ ان حالات میں تیمّم کے سوا چارہ نہیں، لیکن تیمّم کا حکم مائدہ کی آیت (6) میں مرقوم ہے، جو 6 ہجری کے بعد اتری۔ اصل تیمّم سنت سے ثابت ہوا۔ قرآن نے اس کی تائید فرمائی۔ حج، زکوۃ اور ان کی تفصیلات کا بھی یہی حال ہے کہ وہ سنت سے ثابت ہوئیں۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو قرآن نے اس کی تائید فرما دی۔‘‘ علامہ موسی جار اللہ کی تائید دوسرے مقامات سے بھی ہوتی ہے: ’’الثاني: آية الوضوء، فالآية مدنية إجماعا، و فرض الوضوء كان بمكة مع فرض الصلوة ۔۔۔ إلي قوله: كآية الجمعة فإنها مدنية، والجمعة فرضت بمكة‘‘ (مفتاح السعادة والسيادة لطاش كبريٰ زاده م 963ھ: 2/246) ’’آیتِ وضو مدینہ میں اتری اور وضو بالاتفاق مکہ مکرمہ میں فرض ہوا، اسی طرح جمعہ مکہ میں فرض ہوا، لیکن سورہ جمعہ مدینہ میں اتری۔‘‘ اسی طرح تفسیر اِتقان میں بھی موجود ہے۔ [1] حدیث کا مفہوم: مولانا نے حدیث کے مفہوم میں صحابہ اور تابعین کے ارشادات اور اعمال وغیرہ کو بھی شامل فرمایا ہے۔ علامہ طیبی کا یہی خیال ہے، لیکن تعریف عام فنی حیثیت سے تو درست ہے۔ کتب حدیث میں بعض ائمہ کے آثار اور صحابہ کے فتاویٰ کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن جہاں تک حجیت اور استدلال کا تعلق ہے، حدیث صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اعمال و تقریرات سے عبارت ہے: ’’قال شيخ الإسلام ابن حجر في شرح البخاري: المراد بالحديث في
Flag Counter