Maktaba Wahhabi

301 - 676
’’والآحاد في هٰذا الباب قد تكون ظنونا بشروطها، فإذا قويت صارت علوما، فإذا ضعفت صارت أوهاما، و خيالات فاسدة‘‘ (ابن تيمية بحواله صواعق: 2/374) ’’اخبار آحاد کبھی ظنی ہوتی ہیں، کبھی علم و یقین کے مترادف اور کبھی اوہام اور فاسد خیالات۔‘‘ تلقی بالقبول: امت کے قبول اور عمل سے بھی حدیث یقین کے مقام پر پہنچ جاتی ہے۔ (1) حدیث ((إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ)) [1](2) حدیث ذوق عسیلہ، [2] (3) صدقہ فطر، [3] (4) حرمت نكاح مع العمه والخاله ، [4] (5) حدیث حرمت رضاع مثل نسب، [5] تعیین عشرہ مبشرہ [6] وغیرہ احادیث کو امت نے عملاً قبول کر لیا ہے۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ان سے متواتر ہی کی طرح یقین حاصل ہوتا ہے: ’’أما السلف فلم يكن بينهم في ذلك نزاع‘‘ (صواعق: 2/373) ’’سلف میں ان کے متعلق کوئی نزاع نہ تھی۔‘‘ بخاری اور مسلم کی احادیث کی صحت پر امت متفق ہے اور انہیں تلقی بالقبول کا مقام حاصل ہوا ہے۔ ابن الصلاح فرماتے ہیں: ’’لاتفاق الأمة علي تلقي ما اتفقا عليه بالقبول، وهٰذا القسم جميعه مقطوع بحصته، والعلم اليقيني النظري واقع به‘‘ (ابن الصلاح، ص: 12) ’’امت نے صحیحین کی متفقہ روایات کو اجماعاً قبول فرمایا۔ ان احادیث کی صحت قطعی ہے، اس سے علم نظری اور یقینی حاصل ہوتا ہے۔‘‘ ہم مولانا اصلاحی کو قطعاً تکلیف نہیں دیتے کہ وہ ائمہ حدیث کو معصوم سمجھیں، لیکن امت کی
Flag Counter