ایک دو نئے مولوی صاحبان:
ہمارے قریب شیخوپورہ میں ایک دیوبندی بزرگ اقامت پذیر ہیں۔ ان کی ایک کتاب کسی دوست نے عنایت فرمائی۔ کتاب کے ابتدائی اوراق پھٹے ہوئے ہیں۔ نام معلوم نہیں ہو سکا۔ بظاہر یہ کتاب حکیم محمد اشرف سندھو مرحوم کی کتاب ’’نتائج التقليد‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ افسوس ہے کہ لب و لہجہ کے لحاظ سے یہ کتاب بھی مرحوم حکیم صاحب کی کتاب سے اچھی نہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے ان ہی دو چیزوں پر زور دیا ہے کہ اہلحدیث کوئی مکتب فکر نہیں۔ یہ محض حفاظ حدیث کا ایک گروہ ہے، جن کا مشغلہ حفظ متون اور اسانید کا ضبط ہے۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں میں تفقہ اور درایت نہیں۔ تیسری اہم لغزش مولانا نے یہ فرمائی کہ وہ فقہ سے مراد یہ جزئیات سمجھتے ہیں جو مروجہ متون اور شروح میں پائی جاتی ہیں۔ ابتدائی اوراق میں فقہاء صحابہ اور تابعین کا ذکر فرمایا اور یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ بزرگ کس معنی سے فقیہ ہیں؟ جبکہ اس وقت یہ مروجہ فقہیں اور ائمہ اجتہاد موجود ہی نہ تھے، نہ یہ متون موجود تھے اور نہ شروح، چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’اسی طرح ہمارے زمانہ کے اہل حدیث اپنے آپ کو فرقہ بناتے اور بتاتے ہیں۔ اگر یہ ایک فرقہ ہے، تو عہد نبوت سے لے کر انگریز کے عہد حکومت تک اہل سنت کی متعدد شاخوں میں اس فرقہ کو کوئی نہیں جانتا، بلکہ مسلمانوں پر (؟) اہل علم پر (؟) اس فرقہ کا وجود انگریز کے جبر و استبداد کا ایک پہلو (؟) اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا ایک فکر ہو سکتا ہے۔‘‘ (ص: 31 بلفظہ)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’اہل حدیث، اہل کلام، اہل اصول، اہل تفسیر، اہل معانی، اہل ادب، اہل تاریخ، فن کے مدارس اور علم کے طبقات ہیں، مذاہب اور مسالک نہیں ہیں۔ مفسرین کو اہل تفسیر، متکلمین کو اہل کلام، مؤرخین کو اہل تاریخ، محدثین کو اہل حدیث کہا گیا اور کہنا چاہیے، مگر اہل کلام، اہل تاریخ، اہل معانی، اہل تفسیر کی طرح اہل حدیث بھی مذہبی فرقہ نہیں ہے۔‘‘ (ص: 43 بلفظہ)
’’کتاب و سنت کے معانی کو اہل حدیث محدثین نہیں جانتے تھے۔ ان کا وظیفہ صرف
|