نذیر حسین صاحب—قدس اللّٰه روحه—کے درس میں جانے کا ارادہ فرمایا، تو انہیں خواب آیا کہ مولانا سید نذیر حسین صاحب رحمہ اللہ کے ہاتھ میں چھاچھ ہے اور وہ طلبہ کو پلا رہے ہیں۔
خواب کی تعبیر واضح اور ظاہر تھی کہ علمی تشنگی اور تحقیق و نظر کے لیے انسان کی فطرت میں جو طبعی سوز ہے، اس کا علاج دہلی کے درس میں ملے گا۔ تقلید و جمود کی سوزش اور جلن کا علاج مولانا نذیر حسین صاحب مرحوم کی چھاچھ میں پنہاں ہے، لیکن مولانا تھانوی نے ماحول کے تاثر اور اپنے رجحانِ طبع کے مطابق سمجھا کہ چھاچھ میں روغن نہیں، اس لیے وہ میاں صاحب کے فیوض سے محروم رہے۔ ان کے خیال میں دہلی کے درس میں فقہ و درایت نہیں ہو گی۔ یہ وہی عامیانہ خیال تھا جو عموماً ائمہ حدیث اور اہلحدیث کے متعلق ان حلقوں میں کافی مشہور ہے۔ حضرت مولانا نے بھی خواب کے متعلق اسی ماحول میں سوچا۔ انسان ماحول کا غلام ہے، ماحول سے بالا ہو کر سوچنا اربابِ تجدید کا وظیفہ ہے، ہر آدمی اس طرح نہیں کر سکتا۔
غرض اہلحدیث و ائمہ حدیث کے متعلق ان بزرگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے کہ علماءِ حدیث اور فقہاءِ حدیث تفقہ فی الدین سے آشنا نہیں ہیں۔ یہ غلط فہمی اس لیے ہوئی کہ جماعت اہلحدیث نے مسلک کی تبلیغ میں ہمیشہ تساہل برتا۔ ہم اور ہمارے مبلغ اپنے مواعظ اور تقاریر میں صلح کل پالیسی اختیار فرماتے رہے۔ تلخی، تیزی، بد زبانی یقیناً بری چیز ہے، لیکن اچھے لفظوں میں حقیقت کی وضاحت میں تساہل کرنا عیب ہے۔ قادیانی، منکرین حدیث اپنے خیالات کے اظہار میں جھجک محسوس نہیں کرتے، لیکن ہم لوگ ہمیشہ صلح پسندی میں حقیقت پسندی سے گریز کر جاتے ہیں۔ اب تو کچھ ایسے حضرات پیدا ہو گئے ہیں جو اہلحدیث کے ذکر سے بھی شرماتے ہیں، اس لیے عوام میں ایسی غلط فہمیاں پیدا ہونا بالکل قدرتی چیز ہے۔ حق اور صداقت کے اظہار میں شرم نہیں محسوس کرنا چاہیے۔
حضرت مولانا تھانوی مرحوم اور ان کے ہم مشرب بزرگوں کا وہم ہے کہ میاں صاحب مرحوم اور ان کے ہم مسلک علماء میں ظاہریت غالب ہے، تفقہ اور گہرائی نہیں، حالانکہ میاں صاحب مروجہ فقہ حنفی میں اس وقت کے اکابر علماء احناف سے زیادہ مہارت رکھتے تھے۔ مولانا تھانوی تو اس وقت طالب علم تھے، مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی ایسے اکابر میاں صاحب کے تفقہ، دقت نظر اور وسعتِ علم کے معترف تھے۔ مرحوم کے فتاویٰ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (1/103)
|