Maktaba Wahhabi

270 - 676
حرفِ گفتنی آج سے چند سال قبل ’’ترجمان القرآن‘‘ میں چند مقالات حدیث کی حمایت میں چھپے۔ ان میں منکرینِ حدیث پر معتدل تنقید تھی۔ مدیر ترجمان نے غالباً ان مقالات کو غیر معتدل سمجھ کر ضرورت محسوس فرمائی کہ اس کے بعد ’’مسلکِ اعتدال‘‘ لکھا جائے۔ میں نے ’’مسلکِ اعتدال‘‘ ان ایام میں پڑھا تھا۔ میری دانست میں ’’مسلکِ اعتدال‘‘ کا مزاج مولانا کے باقی مضامین سے پست اور سطحی تھا۔ ممکن نہ تھا کہ کسی پڑھے لکھے سمجھدار آدمی کو متاثر کر سکے۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ کسی شخص کی ساری تحریریں یکساں ہوں، اس لیے اس وقت کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ویسے بھی خیال تھا کہ جو اہل حدیث حضرات جماعت اسلامی میں شامل ہیں، وہ اس معاملہ میں مداہنت نہیں فرمائیں گے اور ان کا لکھنا موثر بھی ہو گا۔ افسوس ہے کہ یہ آرزو تو پوری نہ ہو سکی۔ ان حضرات کی صلاحیتوں کے باوجود کسی کے قلم کو جنبش نہ ہوئی، البتہ اخبارات میں یہ مضمون زیرِ بحث آ گیا اور اس پر خاصی نرم و گرم تنقیدات ہوئیں۔ جماعت اسلامی کے ’’اخوان الصفا‘‘ نے یا تو مداہنت فرمائی اور یا پھر مولانا کی حوصلہ افزائی۔ بعض نے فرمایا کہ ذاتی طور پر میری رائے اس کے موافق نہیں، لیکن یہ مسلک بھی لوگوں میں رہا ہے، جسے پڑھ کر افسوس ہوا۔ إِنَّا لِلَّـهِ! ان ایام میں ایک تقریب پر منٹگمری جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک پڑھے لکھے دوست نے کہا کہ ’’مسلکِ اعتدال‘‘ کے متعلق لکھنا ضروری ہے۔ اس میں اخبار آحاد اور سنت کے مقام کے متعلق جس قدر خبط پایا جاتا ہے، مسلک اہل حدیث کی روشنی میں اس کی صراحت ضروری ہے۔ خود جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے بعض دوستوں نے خواہش کی کہ علمی طور پر اس کے متعلق کچھ لکھا جائے۔ اخبارات کی گرمی سے متاثر ہو کر اسی موضوع پر اکتوبر 1955ء کے ’’ترجمان‘‘ میں مولانا اصلاحی کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا۔ اس کا مزاج بھی وہی تھا، البتہ ’’مسلکِ اعتدال‘‘ کی نوک پلک درست کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی دونوں بزرگ چونکہ ایک ہی
Flag Counter