Maktaba Wahhabi

97 - 676
احکام میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ ہر قاضی جو فیصلہ کرتا ہے وہ صحیح ہی ہوتا ہے۔ بددیانت قضاۃ کو چھوڑیے، دیانت دار قاضی بھی معصوم نہیں ہو سکتا۔ بالکل ممکن ہے کہ وہ بڑی نیک نیتی سے فیصلہ کرے، لیکن وہ واقعتاً صحیح نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بعض تم میں سے اپنا عندیہ بڑی فصاحت اور بلاغت سے بیان کرتے ہیں، میں ان کے حق میں فیصلہ صادر کر دیتا ہوں، لیکن واقعتاً وہ فیصلہ درست نہیں ہوتا، اس لیے میرا یہ فیصلہ حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔‘‘ [1] جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فیصلوں کے متعلق یہ ارشاد فرمائیں تو یقین اور قطعیت کہاں سے آئے گی؟ شہادت: محکمہ قضا کا تمام تر انحصار شہادت اور قرائن پر ہے، لیکن ہمیں بداہتاً معلوم ہے کہ شہادت غلط بھی ہوتی ہے۔ غلط فہمی پر بھی مبنی ہو سکتی ہے، اس کی صحت بھی بہرکیف ظنی ہے، اور اس ظن ہی کی بنا پر تمام عدالتیں موجود ہیں، جو کام کر رہی ہیں۔ شرعی اور قانونی طور پر عدلیہ کا انحصار شہادت پر ہے، اور یہ از اول تا آخر ظنی ہے۔ شہادت میں عدالت وغیرہ کی شروط عائد فرما کر اسی ظن میں ایک گونہ اعتماد کی کوشش کی گئی ہے۔ شوافع اور ائمہ حدیث نے ایک شہادت کے ساتھ یمین (قسم) کا اضافہ کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا، تاکہ اس میں اس قدر رجحان پیدا ہو سکے جو اسے ظن کے قریب لے آئے۔ ﴿فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا﴾ (المائدہ: 107) ’’اگر سابقہ دونوں گواہوں پر گناہ (جھوٹی شہادت) کا شبہ ہو جائے تو دوسرے دو ان کی جگہ کھڑے ہو جائیں۔‘‘ اس آیت میں شہادت کے غلط ہونے یا اس کے امکان کا پتا دیا گیا ہے، جب یہ امکان موجود ہے تو شہادت کی صداقت ظنی ہو جائے گی۔
Flag Counter