میں مشہور ہیں۔ والحق أن له فيه سلفا والحق فيه معه بحسب الدليل [1]
مذاہب ائمہ کی اس مختصر تفصیل سے میرا مطلب یہ ہے کہ مرسل کوئی ہوّا نہیں، جس سے تمنا صاحب اور ادارہ طلوع اسلام گھبرا کر بدحواس ہو رہا ہے، بلکہ ایک عرصہ تک ائمہ اسے حجت سمجھتے رہے، اس لیے اسے تدلیس کی ایک قسم قرار دینا، فن حدیث سے لاعلمی پر مبنی ہے یا غلو اور بے اعتدالی پر!
ارسال کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ آسان ہو گا کہ ارسال سے بلاشبہ ضعف کا خطرہ ہو سکتا ہے، لیکن اس فعل سے راوی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ راوی ارسال کا کتنا ہی عادی کیوں نہ ہو، اس کی جو احادیث اس عیب سے خالی ہوں گی، وہ بلا انکار مقبول ہوں گی۔ تدلیس ایسا عیب ہے، جس کا اثر مدلس کی تمام ان روایات پر پڑے گا، جہاں وہ تحدیث کی تصریح نہ کرے، لیکن ارسال کا حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ لأنه عيب في الرواية، والراوي بمعزل عنه [2]
عبیداللہ بن عدی بن خیار، ابو امامہ بن سہل بن حنیف، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ ایسے کبار تابعین اور سعید بن مسیّب، سالم بن عبداللہ، ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن، قاسم بن محمد، علقمہ بن مسروق، حسن بصری، ابن سیرین، امام شعبی، سعید بن جبیر، امام زہری، قتادہ بن دعامہ، ابو حازم اور یحییٰ بن سعید تمام ائمہ سے مراسیل کی روایت ثابت ہے، لیکن ان کی ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں، نہ ان کی ثقاہت پر کوئی عیب! مفصل بحث کے لیے تدريب الراوي في شرح التقريب للنواوي، إرشاد الفحولوغیرہ مطولات کی طرف رجوع کریں۔ [3]
اہلحدیث جماعت کا مسلک مرسل کی حجیت کے متعلق امام شافعی سے بھی کچھ آگے ہے، مگر ہم مرسل سے گھبراتے نہیں۔ بحث و نظر سے جو ثابت ہو، اسے قبول کرتے ہیں، اور جو ثابت نہ ہو سکے، اس کو رد کرنے میں تامل نہیں۔ العهدة علي النظر والدليل
8۔ امام زہری اور ان کے اساتذہ:
امام زہری رحمہ اللہ اپنے وقت کے اکابر اہلحدیث سے ہیں۔ اکثر احادیث امام زہری ہی کے
|