Maktaba Wahhabi

556 - 676
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام مملکت اور متعلقہ امور پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو دینی اور غیر دینی معاملات میں تفریق محض ایک مناظرانہ حجت ہے۔ اس تفریق کی کوئی دلیل نہ قرآن سے ملتی ہے نہ سنت سے، بلکہ انسانی زندگی کے تمام زاویے ظن کی گرفت میں ہیں۔ ایک نفسیاتی جائزہ: ظن اور یقین ایک قلبی کیفیت ہے۔ حوادثات اور واقعات کی بنا پر اس کا اثر قلب پر یکساں ہوتا ہے۔ دلائل کی وجہ سے جو اثر طبیعت انسانی پر پڑتا ہے، وہ کسی دنیوی امر سے متعلق ہو یا دینی مسئلہ سے، اس کے تقاضوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ دنیا کے معاملات میں جب تک نتائج کی بہتری کے لیے مناسب وثوق نہ ہو، کام کرنے کے لیے جرأت نہیں ہوتی۔ جہاں تک قلب کے تاثر کا تعلق ہے، دین کے معاملات میں بھی اس کی یہی حالت ہے۔ صورت حال کی یگانگت کے بعد یہ دلیل بہت ہی بھونڈی معلوم ہوتی ہے کہ حدیث دین کا معاملہ ہے، یہاں ظن قبول نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے معاملات میں ہمیں ظن سے انکار نہیں ہے۔ محترم مخاطب اور ان دوستوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس نفسیاتی تجزیہ پر غور کریں، دلائل اور حوادث کے بعد دل کی اس کیفیت کو ملاحظہ فرمائیں، جو اس کے رد و قبول میں کار فرما ہے، تو وہ اس حیلہ کی کمزوری کو خود محسوس کریں گے۔ یہ مذہب کے نام پر محض ایک جذباتی اپیل ہے۔ حقائق کی دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ دل ایک، دلائل کی نوعیت ایک، تاثرات یکساں، پھر نتائج کے تقاضوں میں فرق کیوں؟ رد و قبول میں امتیاز کیوں؟ ایک اور جائزہ: جس دنیا میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، جن اسباب پر ہماری علمی اور عملی زندگی کا انحصار ہے، اس میں نفسیات کی مقدار کس قدر ہے۔ ہمارے ذرائعِ علم جن پر ہمارے ظن اور یقین کا انحصار ہے، یقین کی تحصیل اور تشکیل میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ کان، آنکھیں، ذوق، حس وغیرہ ذرائعِ علم نے سورج، چاند، ستاروں کے متعلق جو اندازے لگائے اور ان کی مقدار کے متعلق جو فیصلہ کیا، حقیقت اس سے کہیں زیادہ نکلی۔ دلیل عقلی نے ان ظاہری کوششوں کو ناقص قرار دیا۔ یہی حواس ہمارے پاس یقین کی پیدائش کے لیے آخری حربہ تھا، جس کی بے بسی کے مخلصانہ اعتراف کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ اب دلیل عقلی کا بھی جائزہ لیجیے کہ اس کی پہنائیاں کہاں تک ہیں؟ فلاسفہ جنہیں عقل کے
Flag Counter