Maktaba Wahhabi

104 - 676
دی۔ جہاں مذہب یوں آزاد ہو اور سیاست اس طرح بے اثر۔ ملک کے عوام مسلمانوں کی فتوحات پر خوشیاں مناتے ہوں۔ جب وہ جنگی مصالح کی بنا پر کسی مقام سے پیچھے ہٹنا پسند کریں تو اس علاقہ میں صفِ ماتم بچھ جائے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ادارہ طلوع اسلام اور جناب اسلم جیراج پوری نے سازش کے جراثیم کو کون سی عینک سے دیکھ لیا؟ تاریخ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عدل گستری اور انصاف پسندی کی وجہ سے فارس کے لوگ بالکل مطمئن ہو گئے۔ اس لیے سیاست کا میدان چھوڑ کر فاتحین کی علم دوستی کے اثرات سے فارس کے ذہین لوگ فوراً علم کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس راہ میں انہوں نے آخرت کی سر بلندیوں کے علاوہ علمی دنیا میں بہت بڑا نام پیدا کیا اور حکومت کے خلاف سازش کا ان کی زبان پر کبھی نام تک نہیں آیا۔ یہ سازش کا پورا کیس مولانا جیراج پوری کے کاشانہ اور ادارہ طلوع اسلام کے دفتر میں تیار ہوا۔ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ البتہ عباسی حکومت میں جب قلمدانِ وزارت برامکہ کے ہاتھ میں چلا گیا تو یونانی علوم کے تراجم سے اسلام کے سادہ عقائد کے خلاف ایک محاذ قائم ہوا، لیکن اس وقت حدیث کے دفاتر منضبط ہو چکے تھے۔ خلیفہ ہارون ایسا آدمی حدیث کے متعلق مطمئن تھا۔ رہے یونانی علوم تو ان کا رد ائمہ سنت نے پوری جرأت سے کیا، یہاں تک کہ وہ بے اثر ہو گئے اور ائمہ سنت کے حملوں کی تاب نہ لا سکے۔ سازش کا مضحکہ خیز پہلو: سازش کی یہ عجیب قسم ہے کہ سازشیوں نے فاتحین کا مذہب قبول کیا، پھر اُن کے علوم کی اس قدر خدمت کی کہ فاتحین اپنے علوم کی حفاظت سے بے فکر اور کلی طور پر مطمئن ہو گئے۔ پھر فاتحین نے ان میں سے اکثر علوم اور علماء کی سرپرستی کی۔ ابن خلدون فرماتے ہیں: ’’ودفعوا ذلك إلي من قام به من العجم والمولدين، وما زالوا يرون لهم حق القيام به، فإنه دينهم و علومهم، ولا يحتقرون حملتها كل الاحتقار‘‘ (مقدمة ابن خلدون، ص:58) ’’عرب بادشاہوں نے علوم کو ان لوگوں کے سپرد کر دیا جو ان کی پوری طرح حفاظت کر
Flag Counter