سکیں، اور یہ لوگ سب عجمی اور موالی تھے، اور یہ بادشاہ ان علماء کے حقوق کا پورا احترام کرتے تھے اور ان کی خدمات کی قدر کرتے تھے اور قطعی طور پر ان کو حقیر نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ وہ ان کے علوم اور دین کے محافظ تھے۔‘‘
معلوم ہے کہ اموی خلفاء کے وقت شاہی درباروں میں عجمیوں کو وہ اقتدار حاصل نہ تھا جو عباسی درباروں میں برامکہ کو حاصل ہوا، لیکن ان کا دامن دین کی خدمات سے بالکل خالی تھا۔ قرآن و سنت اور دینی علوم تو بڑی دور کی بات ہے، برامکہ سے تو عربی زبان کی بھی کوئی خدمت نہ ہو سکی۔ ہارون الرشید نے امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے درس کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی، لیکن امام نے اسے بے اعتنائی سے مسترد کر دیا۔ روپیہ دینے کی کوشش کی تو پورے استغنا سے واپس فرما دیا۔
سازش کا آخر یہی مقصد ہو سکتا تھا کہ شاہی دربار تک رسائی ہو، مال و دولت اور حکومت میں حصہ ملے۔ اب دربار خود درِ دولت پر حاضر ہوتا ہے۔ اپنی ساری سر بلندیاں چھوڑ کر پورے انکسار، انتہائی احترام سے خزانوں کے دروازے کھلتے ہیں، تھیلیاں با ادب پیش ہوتی ہیں اور ’’سازشی‘‘ ہیں کہ نطر اٹھا کے نہیں دیکھتے ۔۔!
بادشاہ عرض کرتے ہیں کہ بغداد تشریف لے چلیے، آنکھیں فرشِ راہ ہوں گی۔ فارسی سازش کے سرغنہ یا فنِ حدیث کے سالار قافلہ فرماتے ہیں:
((والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون)) [1]
مطلب یہ کہ اس بڑے دربار سے علیحدگی میرے لیے ناممکن ہے۔ پھر سازشیوں کا یہ پورا گروہ مختلف عجمی ممالک سے ہزاروں میل سفر طے کر کے مدینہ منورہ پہنچ کر امام کی خدمت میں تحصیل علم کے لیے پیش ہوتا ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ان کا شیخ عرب ہے اور یہ عجمی النسل لوگوں کی پوری سازش کا راز فاش نہ کر دے۔ عرب استاد کے عجمی شاگرد مدتوں استفادہ کرتے ہیں اور انہیں علوم کا درس دیا جاتا ہے۔ ساتھی ساتھی پر جرح کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کے کھلے بندوں تذکرے ہوتے ہیں۔ عرب محدث عجمی علماء پر تنقید کرتے ہیں، عجمی اہل عرب کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن اس سازش کا سراغ، جس کے اختراع کا سہرا ’’طلوع اسلام‘‘ کے دفتر کے سر ہے،
|