Maktaba Wahhabi

108 - 676
’’ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ میں بیٹھ کر لکھ رہے تھے۔ ایک آدمی نے سوال کیا کہ روما پہلے فتح ہو گا یا قسطنطنیہ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرقل کا شہر پہلے فتح ہو گا۔‘‘ یعنی قسطنطنیہ۔ اس اثر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا درسِ حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس کی کتابت کا تذکرہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اسباقِ حدیث یادداشت اور تذکرہ کے طور پر لکھا کرتے تھے۔ جھوٹی حدیث اور وعید: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کے بعد کہ جو آدمی دانستہ جھوٹی حدیث بیان کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ [1] حدیث کی کتابت کے سوا چارہ ہی نہیں۔ معلوم ہے کہ یہ حدیث قرآن کی طرح متواتر ہے۔ اس حدیث کی موجودگی میں کتابتِ حدیث اور اس کے جواز اور عدم جواز کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ اس کا قطعی مفہوم یہ ہے کہ حدیث ایک مستند دستاویز ہے۔ شرعاً وہ حجت ہے۔ اس میں کسی جھوٹ اور آمیزش کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس حقیقت کے ہوتے ہوئے ضروری ہے کہ اس ذخیرہ کی حفاظت کے لیے ہر سامان کیا جائے۔ حفظ و ضبط ہو یا کتابت اور تحریر بلکہ دونوں، کیونکہ انفراداً دونوں میں غلطی اور سہو کے امکانات ہیں۔ اور اس کے لیے موزوں تر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے جم غفیر کی موجودگی ہے، ورنہ اس سامانِ حفاظت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ سابقہ آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی طبعی رفتار کے ساتھ یہ سلسلہ مختلف علاقوں میں جہاں اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے، پوری پہلی صدی میں جاری رہا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ضخیم کتابیں بطور تذکرہ جمع فرمائیں، جن کی طرف وہ بوقت ضرورت مراجعت فرماتے اور احادیث کی تصحیح فرماتے، تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط چیز منسوب نہ ہو جائے۔ اس کی تفصیل سنت کے دفاتر میں اپنے اپنے مقام پر موجود ہے۔ دوسری صدی: پہلی صدی کے اواخر میں اموی سلطنت کا چراغ گل ہو گیا اور اموی حکومت کا پھریرا ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہو گیا۔ چند سال ائمہ حدیث کی نقل و حرکت پر سیاسی خلفشار کی وجہ سے پابندی رہی اور علم کے یہ خزانے اپنے اپنے علاقوں تک محدود رہے۔ کوفہ، بصرہ، بغداد، خراسان، مکہ مکرمہ، مدینہ
Flag Counter