(6) چھٹی یحییٰ بن یحییٰ بواسطہ مالک۔
(7) ساتویں محمد بن رافع سے۔
(8) آٹھویں اسحاق بن ابراہیم وغیرہ سے۔
(9) نویں ابن نمیر اور زہیر بن حرب سے۔
(10) دسویں پھر یحییٰ بن یحییٰ سے۔
(11) گیارہویں محمد بن یحییٰ سے۔
(12) بارہویں ابن ابی خلف سے۔ [1]
دسویں اور گیارہویں حدیث کے سوا، باقی تمام کا مدار زہری رحمہ اللہ پر ہے۔ تمام اسانید زہری رحمہ اللہ پر جمع ہوتی ہیں اور شیعہ حضرات کے شبہات کا تفصیلی جواب بھی پہلی روایات میں ہے۔ یہاں امام زہری رحمہ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رفقاء کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہاں اس جذباتی فقرہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ حقائق کو حقائق ہی کی روشنی میں دیکھنا چاہیے!
حدیثِ اِفک کتب حدیث میں:
ذیل کے ائمہ حدیث نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے: بخاری، مسلم، ترمذی، ابن سعد، امام احمد، طیالسی، ابن ہشام، واقدی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً چودہ مقامات پر اور امام احمد رحمہ اللہ نے مسند عائشہ اور مسند ام رومان وغیرہ میں تذکرہ فرمایا ہے۔
عمادی صاحب کے متعلق معلوم ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان ائمہ کرام کے نام سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ اساطینِ سنت کے بالمقابل وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں گے، لیکن سوال یہ ہے اس ضد اور ہٹ دھرمی میں خوبی کیا ہے؟
یہ امام فن حدیث کے ماہر ہیں۔ ان میں اکثر جرح و تعدیل کے امام ہیں۔ حدیث کی تنقید اور چھان پھٹک میں وہ قائد ہیں۔ ان کی روایات دلیل اور سند کا مقام رکھتی ہیں۔ اس کے بالمقابل عمادی صاحب اور منکرین حدیث کا پورا خاندان فن حدیث سے نابلد اور بے خبر ہے!
کیا ماہر فن اور علماء کے سامنے ضد کرنا اور نہ ماننا خوبی ہے؟ صراف سونا کسوٹی پر کستا ہے، وہ
|