Maktaba Wahhabi

607 - 676
کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت سے محروم رکھا۔ شیعہ سنّی نزاع میں یہ سب سے اہم مبحث ہے۔ اس واقعہ کی تفصیلات، فدک اور خیبر کے ساتھ مدینہ منورہ کی اراضی کی شرعی حیثیت اور وضاحت، جس سے اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر معترضین کی غلطیاں رفع ہو سکتی ہیں اور واقعہ کی شرعی حیثیت واضح ہو جاتی ہے، یہ سب امام زہری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت فرمائی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مطالبہ، پھر صحابہ کی مجلس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مشروط تفویض اور سپرداری، پھر دونوں بزرگوں کی باہمی رنجش، زمین پر دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تصرف، یہ تفصیلات بھی امام زہری رحمہ اللہ ہی نے روایت فرمائی ہیں۔ [1] اگر اخبار کے صفحات کی تنگی کا خطرہ نہ ہوتا، تو میں ان تمام روایات کو ذکر کر دیتا، جو صحیح مسلم میں صفحہ (49) سے صفحہ (92) جلد ثانی میں مرقوم ہیں اور صحیح بخاری میں بھی ایسی دستاویز ہیں، جس کے بعد قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ (بزعم جناب عمادی صاحب) اور اعداءِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے موقف کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے۔ پورے باب میں امام مالک رحمہ اللہ سے صرف دو روایتیں مرقوم ہیں، جن میں ((نحنُ معاشِرَ الأنبياءِ لا نُوَرِّثُ)) کو سنداً ذکر کیا گیا ہے۔ باقی مفصل روایات ساری کی ساری امام زہری رحمہ اللہ سے منقول ہیں۔ مولانا عمادی غور فرمائیں! ان کی اس تُک کی کیا حیثیت رہ جائے گی کہ زہری کے سوا حدیثِ اِفک کا کوئی راوی نہیں؟ صحیح مسلم جلد ثانی ’’باب حكم الفيء‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مطالبہ کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ (1) پہلی حدیث امام احمد رحمہ اللہ سے۔ (2) دوسری قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ سے۔ (3) تیسری یحییٰ بن یحییٰ رحمہ اللہ سے۔ (4) چوتھی عبداللہ بن محمد رحمہ اللہ سے۔ (5) پانچویں اسحاق اور محمد بن رافع سے۔
Flag Counter