ہشتم:
عمادی صاحب نے قصہ افک کے وضع کا آٹھواں قرینہ یہ بیان فرمایا ہے کہ رواۃ نے پورے سفر میں نماز اور اس کے اوقات کا ذکر نہیں کیا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ (معاذ اللہ) حدیث کا واضع بے نمازی تھا، اس لیے اس نے اس قصہ کے تذکرہ میں نماز اور اس کے اوقات کو نظر انداز کر دیا، لہٰذا یہ پورا قصہ وضعی ہے۔ محدثین کو سادگی کی وجہ سے اس درایت غامضہ کا علم نہ ہو سکا اور عمادی صاحب نے نہایت دانشمندی سے اس کا کھوج لگا لیا!
ہماری نظر میں عمادی صاحب بھی کافی سادہ لوح معلوم ہوتے ہیں۔ درایت کے شوق میں بسا اوقات علم اور عقل سے دست کش ہو جاتے اور ایسی بہکی بہکی باتیں کر جاتے ہیں، جنہیں سن کر شرم سی محسوس ہوتی ہے۔
أولاً: اس قصہ میں بے شک نمازوں کے اوقات کا بالاستیعاب ذکر نہیں، نہ ہی اس کی ضرورت تھی، ضروت کے لحاظ سے حدیث کے بعض طرق میں نماز صبح اور تیمّم کا تذکرہ موجود ہے، جب مقصد اور موضوع کلام اور ہو، تو خواہ مخواہ نمازوں کا تذکرہ خلاف دانش ہوتا اور اگر یہ تذکرہ آ جاتا تو شاید عمادی صاحب اس تفصیل اور تذکرہ ہی کو وضع کا قرینہ قرار دے لیتے!
ثانياً: قرآن مجید میں انبیاء اور صلحاء کے کئی اسفار کا ذکر موجود ہے، لیکن نماز کا نام تک نہیں لیا گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سفر مدین کی طرف، سفر کی انتہاء پر مدین کے ایک نیک آدمی سے ملاقات ہے۔ اس کی لڑکیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان الفاظ میں سفارش فرمائی:
﴿ يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ ﴾ (القصص: 36)
’’ابا جان! اسے کام کاج کے لیے گھر میں بطور مزدور رکھ لیجیے، یہ قوت اور امانت کے لحاظ سے بہترین آدمی ہے۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے یہاں بطور اجیر دس سال قیام فرمایا، پھر مع اہل و عیال سسرال سے واپس ہوئے۔ راستہ میں اہلیہ نے سردی محسوس فرمائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ دیکھی اور فرمایا:
﴿ قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ
|