تسکین نہیں ہوئی جس قدر اطمینان مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اس نہج سے ہوا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دواوینِ سنت میں بہت مبسوط ہے اور اس سے بھی ایک طالب کو انشراح کا بہت کچھ سرمایہ میسر آ سکتا ہے لیکن قرآن عزیز کے جمال و اختصار میں جو لطف و طمانیت پنہاں ہے، اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکیں گے جو اس طریق پر سوچنے کی کوشش کریں گے۔ اس طریق پر سوچنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ دل اور دماغ رسمی آلائشوں سے بالکل پاک ہوں۔ فطرت کے دائمی اور قدیمی اصول پیش نظر ہوں اور ان کے نفسیاتی اثرات سے کوئی طالب علم فطرتاً آشنا ہو تو معاملہ بہت جلد حل ہو سکتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ رسمی مناظرات سے فطرت کی یہ قوت ہی ناپید ہو جاتی ہے، اس لیے مناظر یقیناً اس افادی حیثیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اُسے اپنے طریق پر سوچنا چاہیے ؎
خلق اللّٰه للحروب رجالاً
و رجالا لقصعة و ثريد
؎
ہر کسے را بہر کارے ساختند
رد و قبول کے اسباب کا تجزیہ:
کسی چیز کے رد و قبول میں جہاں بعض دوسرے اسباب کار فرماں ہیں، وہاں اعتماد کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اعتماد میں انسانی سیرت کو بہت کچھ دخل ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ بسا اوقات متعدد آدمیوں کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور ایک شخص جس کی عادات سے ہم واقف ہیں، ہمیں زیادہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک بڑا صادق القول شخص کسی ایسے ملک میں چلا جائے جہاں لوگوں کو اس کی صداقت کا علم نہ ہو اور وہ اس کے اوصاف سے آشنا نہ ہوں تو وہاں اس کی روایت اور شہادت کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی، لیکن اگر اس کے ان اوصاف اور اس کی سیرت کے محاسن لوگوں کو معلوم ہوں تو پھر وہ کوئی قصہ یا واقعہ بیان کرے تو اس پر کوئی شبہ نہیں ہو گا اور اس کے جاننے والے خود اس کی خبر کو قبول کریں گے۔
علمِ رجال کی ایجاد محدثین نے اسی عقلی اور نفسیاتی اصول کی بنا پر کی، تاکہ رجال کی سیرت
|