بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا يَجِبُ اِسْتِحْضَارُهٗ اَوَّلاً
الحمدلله وكفيٰ، وسلام عليٰ عباده الذين اصطفيٰ
حدیث کے خلاف جس قدر لٹریچر شائع ہو رہا ہے اور جس عجلت سے شائع ہو رہا ہے اور جس لب و لہجہ سے شائع کیا جا رہا ہے، وہ اصحابِ سنت سے مخفی نہیں، اور اس کے متعلق جس قدر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو قرآن اور سنت کو تاویل اور تقلید کے بغیر مانتے ہیں، وہ بھی اربابِ سنت والحدیث پر عیاں ہے، اور اس میں جس قدر تساہل برتا جا رہا ہے وہ بھی پوشیدہ نہیں۔ زندہ جماعتوں کے لیے اس قسم کا اغماز اور تساہل جس قدر مضر ہے، اس سے بھی آپ حضرات بے خبر نہیں۔ پیش نظر مقالہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
دراصل یہ ایک تقریر تھی جو جامعہ سلفیہ کانفرنس فیصل آباد میں کی گئی تھی، جس میں اختصار کے ساتھ انکارِ حدیث کے اس پہلو پر کچھ گزارشات پیش کی گئی تھیں۔ بعد میں احباب کے اصرار پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ الاعتصام میں شائع ہوئیں، جسے ضلع ملتان کے کسی صاحب نے شائع کر دیا ہے۔ یہ اشاعت گو میری اجازت سے تھی، مگر وہ اس قدر غلط اور خراب چھپی کہ اسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کاش! وہ حضرت اسے اس طرح شائع کرنے کی تکلیف نہ فرماتے۔ لہٰذا اس پر مزید ایک نظر ڈال کر یہ مقالہ شائع کیا جا رہا ہے۔
ان ہی ایام میں جسٹس محمد شفیع صاحب جج ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ بھی نظر سے گزرا، جو بے حد غیر معتدل اور ایسے بڑے آدمی کے علمی مقام سے بہت پست تھا۔ میں چونکہ انگریزی نہیں جانتا، اس لیے اردو تراجم پر اعتماد کر کے اس کی بعض خامیوں کو واضح کیا گیا۔ اگر یہ کوشش عنداللہ مقبول ہو تو میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجر میں میرے اساتذہ کرام کو بھی شریک فرمائے۔
والسلام
محمد اسماعیل
چاہ شاہاں، گوجرانوالہ (63/9/2)
|