حدیث شریف کا مقامِ حجیت
واضح رہے کہ قرآن و حدیث منزل من اللہ ہیں اور حجیت میں دونوں یکساں ہیں۔ ایک حاکم کے دو حکموں میں تفاوت نہیں ہو سکتا۔ ارشاد خاوندی ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّٰه وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللّٰه وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰه وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللّٰه غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿١٥٢﴾﴾ (النساء: 150 تا 152)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان دونوں میں تفریق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض احکام مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ درمیانی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ یقیناً کافر ہیں اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میں تفریق نہیں کرتے، ان کو اجر ملے گا اور اللہ کی بخشش اور رحمت ان کے شاملِ حال رہے گی۔‘‘
ہمارے اہل قرآن دوستوں کا مسلک بھی تقریباً اس کی ایک صورت ہے۔ ایک کو حجت ماننا، دوسرے کی حجیت سے انکار کرنا، یہ تفریق ہے جس پر قرآن نے سرزنش فرمائی ہے۔
حدیث: ((أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)) [1]کا مقصد بھی یہی ہے اور یہی اصول اس حدیث
|