Maktaba Wahhabi

137 - 676
قرآن عزیز میں عریانی: بعض واجبی ضرورتوں کے پیش نظر قرآن عزیز نے بھی خاصا عریاں اندازِ بیاں اختیار فرمایا ہے۔ (1) مثلاً علماءِ یہود کی تہمت طرازی اور نصاریٰ کے غلو نے ایسی صورت پیدا کر دی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے مقام کو اس طرح نکھارا جائے کہ دونوں فریق اپنے اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں۔ معاملہ اس قدر چھان پھٹک دیا جائے کہ ہر فریق کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور یہ عریانی کے سوا مشکل تھا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: (1) ﴿وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا﴾ (التحریم: 12) (2) ﴿وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا﴾ (الانبیاء: 91) عمران کی بیٹی مریم نے اپنی شرمگاہ کو پاک رکھا اور ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی۔ سورہ تحریم میں ضمیر مذکر کا مرجع لفظ ’’فرج‘‘ ہے اور سورہ انبیاء میں حضرت مریم صدیقہ علیہا السلام۔ اس عریانی کی ضرورت تھی۔ اس عریانی کے بغیر نہ یہودی اپنی ہٹ سے باز آتے نہ عیسائی اپنا غلو ترک کرتے۔ مصلحت کا تقاضا تھا کہ بات ذرا عریاں ہو جائے۔ جسٹس شفیع صاحب تو فرمائیں گے: میں باور نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ نے ایک پاک باز اور مقدس عورت کے متعلق اس قدر عریاں الفاظ استعمال فرمائے ہوں، لیکن ان کے سوا چارہ نہ تھا۔ (2) پھر یہی تذکرہ سورہ مریم میں ملاحظہ فرمائیے: ﴿أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا﴾ (مریم: 20) اسی طرح (3/47) [1]میں حضرت مریم علیہا السلام نے بچے کی پیدائش کے متعلق جو معذرت کا طریقہ اختیار فرمایا ہے، کافی عریاں ہے۔ آپ اسے باور فرمائیں یا نہ فرمائیں، حالات کا تقاضا یہی تھا کہ براءت کے لیے عریاں لفظ استعمال ہوں۔ (3) ان عورتوں کا ذکر فرماتے ہوئے جن سے نکاح حرام ہے، فرمایا:
Flag Counter