Maktaba Wahhabi

136 - 676
اسی طرح جب عورت خاوند کے متعلق شکایت کرے کہ یہ جنسی ضرورت پر قادر نہیں۔ ایک طرف اس تعلق کے ہمیشہ کے لیے انقطاع کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف اخلاق کا تقاضا کہ میاں بیوی کے معاملات عریاں نہ ہوں۔ فرمائیے! آپ کسے ترجیح دیں گے؟ اگر خاوند استغاثہ کی صحت کا انکار کر دے، شاید اس عریانی کی ڈاکٹری معاینہ تک نوبت پہنچے گی، تب یہ شرعاً و اخلاقاً ہر طرح جائز اور درست ہو گا۔ بالکل یہی حال درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کا ہے۔ حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن نے یہ تذکرہ کسی عوامی تقریر میں نہیں فرمایا، بلکہ بعض بچے اپنی اماں سے بعض مسائل دریافت کر رہے ہیں اور چونکہ وہ سنت کو شرعی حجت سمجھتے ہیں، اس لیے چاہتے ہیں کہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے حل ہو۔ اب یہاں دو تقاضے ہیں: (1) ایک علم اور فہم کا تقاضا ہے۔ (2) دوسرا اخلاق اور پردہ داری کا۔ اگر یہاں ان رسمی اخلاقی اقدار کا احترام کیا جائے تو نہ مسئلہ سمجھ میں آئے گا اور نہ طالب اور سائل کی تسکین ہو گی۔ درس و تدریس یا مقدمات کو بھی جانے دیجیے۔ بعض خانگی نزاعوں میں اس قسم کے تذکرے بعض اوقات ضرورت کے تحت اس سے زیادہ عریاں طریقے سے سامنے آتے ہیں، وہاں اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہوتا اور وہ نزاع رفع نہیں ہو سکتی، جب تک تھوڑی سی عریانی استعمال نہ کی جائے۔ مساجد میں بعض اوقات لوگ طہارت کے مسائل دریافت کرنے آتے ہیں تو مسئلہ سمجھنے کے لیے عورتیں بھی مفتی صاحب کے سامنے کسی قدر عریانی کے لیے مجبور ہو جاتی ہیں۔ ان تصریحات کے بعد ہم یہ گزارش کریں گے کہ ہائی کورٹ کا جج اگر اس عامیانہ انداز سے سوچنے لگے تو نہ صرف ہائی کورٹ کا وقار ختم ہو جائے گا، بلکہ ماتحت عدالتیں آپ کے اس طرح کے محاکمات سے تنگ آ جائیں گی۔ ماتحت عدالتیں تفتیش کے بعد بعض فیصلے کریں گی، مگر آپ پورے ناز سے فرمائیں گے کہ ’’میں باور نہیں کر سکتا کہ کسی عورت کا عدالتی بیان اتنا عریاں ہو سکتا ہے۔‘‘
Flag Counter