خبر واحد کی اصطلاح:
ہر خبر بلحاظ خبر صدق اور کذب کی متحمل ہے، اس میں تمام اخبار مساوی ہیں۔ تواتر، شہرت اور وحدت یہ خبر کے اوصاف اور عوارض ہیں، اسی طرح کذب، اشتباہ، وضع یہ بھی خبر کے اوصاف و عوارض ہیں۔ ہر خبر کے ساتھ ان اوصاف، عوارض یا قرائن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ان قرائن کی وجہ سے خبر کے مراتب میں تفاوت ہو گا۔ کذب، اشتباہ، وضع، یہ رد کے قرائن ہیں اور کبھی اس میں توقف کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے علاوہ ہر خبر مقبول ہے۔ صحیح، حسن خبر واحد ہی کی اقسام ہیں۔
پھر خبر کے رد و قبول کا تعلق رواۃ کے اعداد و شمار ہی سے نہیں، بلکہ مخبر کے اوصاف اور خصائص کا بھی اس پر اثر ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہزار بشر بن غیاث مریسی ایک امام احمد سے ٹکر نہیں لے سکتا، اور مثلاً اگر حضرت امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد رحمہم اللہ ایک خبر دے دیں، دس کروڑ پرویز، اسلم جیراج پوری اور عمادی عددی اکثریت سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے ائمہ رجال نے اوصافِ رجال کا تذکرہ کتبِ رجال میں بسط سے فرمایا ہے۔ خبر واحد میں اگر ظنیت کا کوئی واہمہ ہے، تو وہ من حیث العدد ہے۔ اوصافِ رجال کے لحاظ سے اگر خبر واحد کے رواۃ میں ایسے مستند رواۃ آ جائیں، جو اپنے وقت میں صدق و ثقاہت میں مستند سمجھے گئے ہوں، تو یہ عددی ظنیت وہیں ختم ہو جائے گی۔ اصطلاحی ظن ہو یا عرفی، عرفِ جہلاء میں استعمال کر کے منکرین حدیث نے ایک کہرام مچا دیا۔ اس کہرام سے آج مستند علمی حلقے بھی متاثر ہیں۔ بعض دینی تحریکات کے بانی اصحاب فکر بھی اس قدر بہکی ہوئی باتیں کرتے ہیں، جو ان کے مقام سے کہیں فروتر ہیں۔ شرم آتی ہے کہ یہ لوگ کس سادگی سے شیاطینِ اعتزال کی گرفت میں آ گئے! ائمہ حدیث کی اسانیت کو اربابِ اعتزال کے پاس رہن رکھ رہے ہیں۔ ﴿ وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴾ (الکہف: 104)
مصنفین کے اصول:
ساری مصیبت غالباً اس سے پیدا ہوئی کہ اصول فقہ کے مصنفین اور واضعین میں اربابِ اعتزال کو بہت حد تک دخل ہے۔ علامہ کاتب چلپی (1067ھ) علامہ علاؤ الدین حنفی سے نقل فرماتے ہیں:
’’اعلم أن أصول الفقه فرع لعلم أصول الدين، فكان من الضرورة أن
|