درایت اور کارناموں کو اگر کھلا اور آزاد کر دیا گیا تو یہ انکارِ حدیث کا پیش خیمہ ہو گا۔ مولانا مودودی اور آپ کی روشنی حدیث پر نقد میں ایسی فوضویت اور آوارگی کا راستہ کھول دے گی جس کی مضرت انکارِ حدیث سے کم نہیں ہو گی۔ اس آوارگی کا اندازہ ان چند پڑھے لکھے حضرات سے نہیں لگانا چاہیے جو آپ کے آگے پیچھے پھرتے پھراتے رہتے ہیں اور نہ ان چند اہلِ حدیث رفقا سے جو جماعتی پابندیوں کی وجہ سے منقار زیر پر رکھنے پر مجبور ہیں۔ جماعتی مصالح کی بنا پر وہ اپنا عندیہ کھل کر نہیں کہہ سکتے۔ ان کا اندازہ ان عوام سے لگانا چاہیے جو ملک کے اطراف و اکناف میں آپ کا لٹریچر پڑھتے ہیں۔ جب وہ حریمِ قیادت سے یہ سنیں گے کہ ائمہ حدیث اصولِ درایت سے محروم تھے۔ ان کا نقطہ نظر اخباری تھا، فقہی نہ تھا۔ جب انہیں معلوم ہو گا کہ مشائخ کی اسانید، مدارس کی تعلیم سے تنقیدِ حدیث کی اہلیت پیدا نہیں ہوتی تو وہ اپنے ذہن میں ائمہ اور دینی تعلیم کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے؟ وہ جب آپ کی زبان سے سنت کی محتاط اور سکڑی ہوئی تعریف سنیں گے، اخبارِ آحاد کی ظنیت کا وظیفہ سنیں گے تو اس ماخذ کے متعلق ان کے حسنِ ظن کو کس قدر ٹھیس پہنچے گی۔ حریمِ قیادت میں آنے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں ’’مکتبی ملّا‘‘ سے کہیں زیادہ ہو گئی ہیں۔ جو فرمانا ہو اسے بہت سوچ سمجھ کر فرمائیے ۔۔!
نہ ہر درایت سے فنِ حدیث میں مہارت حاصل ہوتی ہے نہ ہر کارنامے اور خدمت سے انسان ’’رسول کا مزاج شناس‘‘ بن سکتا ہے۔ اس کے لیے وہی لوگ موزوں ہو سکتے ہیں حدیث جن کے شب و روز کا مشغلہ ہے، جن کے عزیز اوقات ’’قال اللہ و قال الرسول‘‘ میں بسر ہوتے ہیں۔ قیادت پیشہ حضرات نہ ہیرا پہچانتے ہیں نہ جوت ۔۔!!
مزاج شناسی اور جوت:
مولانا مودودی نے مسلکِ اعتدال میں اصولِ حدیث اور ان کے قواعد کو ظنی اور انسانی مساعی کا نتیجہ کہہ کر ان کے مقام کو ہلکا کر کے ’’دین کے سسٹم‘‘، ’’مزاج شناسی‘‘ اور ’’ہیرے کی جوت‘‘ پر نقدِ حدیث کا انحصار فرمایا اور پھر اسے ذوقی کہہ کر حدیث اور اس کی تنقید کو اس قدر بے اصول کر دیا کہ اس مسکین فن پر ہر منچلا زبان درازی کر سکے، اور مولانا اصلاحی نے کارناموں اور خدمات کو معیار قرار دے کر اسے اور بھی کھلا کر دیا۔ یہ کشادگی نہ قاضی عیسیٰ بن ابان کے مسلک میں تھی نہ متاخرین فقہاء میں۔ اس کی ’’جوت‘‘ کچھ تو معتزلہ سے ملتی ہے اور کچھ سرسید کی نیچر پرستی سے۔
|