جب وہ حدیث اور اس کے رواۃ پر بحث کرتا ہے، اس کی شان اور انداز تحقیق اخباری اور تاریخی انداز سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر اخباری روایات احادیث کے خلاف آ جائیں، تو ائمہ حدیث اسے تعارض نہیں سمجھتے۔ تطبیق کی بجائے وہ حدیث کو ترجیح دیتے ہیں اور بات بھی معقول ہے۔
فن درایت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات درایت کی وجہ سے ایسے قرائن جمع ہو جاتے ہیں، جن کی بنا پر اخباری روایات کو حدیثی روایات پر ترجیح دینا درست معلوم ہوتا ہے۔ درایت کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فن میں اہم فائدہ یہی ہے۔
محض شخصی عقل اور تجربہ، قرائن کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اساس پھر بھی روایت اور واقعات پر ہونی چاہیے۔ عقلی استحالات ایک مستند قصہ کی تغلیط کے لیے کافی نہیں، بلکہ اگر صحیح روایات کی تغلیط محض عقلی احتمالات سے کی جائے، تو اس کا مطلب روایت اور رواۃ دونوں کی تکذیب ہو گا اور اگر ان قرائن کی بنیاد کوئی دوسری حدیث ہو، تو اعتماد روایت پر اور قرائن ترجیح کا موجب ہوں گے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ سنت کو اس فن کی ضرورت چند وجہ سے ہوئی، چونکہ روایت بالمعنی کے متعلق ائمہ میں پہلے ہی سے اختلاف تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ روایت بالمعنی کا رواج عام تھا۔ حدیث کا ایک طالب علم جانتا ہے کہ ایک حدیث کس قدر مختلف الفاظ سے مروی ہوتی ہے۔ خود قرآن عزیز پہلے انبیاء کی تاریخ کو متعدد مقامات پر مختلف الفاظ میں ذکر فرماتا ہے۔ اسے روایت بالمعنی ہی کہا جا سکتا ہے۔ ائمہ حدیث اس اجازت کے بعد یقین فرمانا چاہتے تھے کہ کہیں حدیث کا اصلی مقصد ہی اختلاف تعبیرات کی وجہ سے پریشانی کی نذر نہ ہو جائے، اس لیے انہوں نے فن درایت کو عربی علوم کی اساس پر قائم فرمایا۔
فقہاءِ عراق:
حضرات عقلاءِ عراق نے دو فتوے اور بھی دیے، جن کی بنا پر درایت کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ نماز میں فارسی قراءت کا مسئلہ حضرت امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب تھا۔ [1] مطولات میں اس کے متعلق رجوع اور اقرار دونوں امر قائل ہیں اور قائل اور مخالف دونوں فریق موجود۔ گو ائمہ حدیث بلکہ دوسرے ائمہ اس کے قائل نہیں، تاہم اہل علم کی محفل میں یہ مسئلہ مابہ النزاع ضرور ہے۔
|