اجتہادی مسائل میں امام بخاری رحمہ اللہ دنیا کے مروجہ مسالک سے بالکل آزاد ہیں، وہ مروجہ طرقِ فکر سے کسی کے بھی پابند نہیں۔
اکثر مروجہ طریقہ ہائے فکر نے امام رحمہ اللہ کو اپنانے کی کوشش فرمائی ہے۔ امام الأدباء علامہ حافظ عینی رحمہ اللہ سے حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری اور استاذ العلماء سید انور شاہ صاحب رحمہ اللہ تک یہ کوشش جاری معلوم ہوتی ہے کہ اولاً تو خود امام بخاری رحمہ اللہ کو حنفی بنا لیا جائے، ورنہ کم از کم صحیح بخاری تو ضرور حنفی ہو جائے، لیکن علمی حلقے خوب جانتے ہیں کہ نہ صحیح بخاری حنفی ہو سکی، نہ امام بخاری اپنے مقام سے نیچے اتر سکے اور یہ کوششیں ﴿حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ﴾ (یوسف: 68) [1]کا مصداق ہو کر رہ گئیں۔
حضرات علماء دیوبند کا اضطراب:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی اس صراحت کے بعد کہ:
’’اِعلم أن الناس قبل المائة الرابعة كانوا غير مجمعين علي التقليد الخالص لمذهب واحد بعينه‘‘ (1/122) [2]
’’لوگ چوتھی صدی سے قبل خاص مذہب کی تقلید پر جمع نہ تھے۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ ان سکول ہائے فکر کو جو قبولیت چوتھی صدی کے بعد حاصل ہوئی، وہ اس سے پہلے نہ تھی، نہ حنفی، شافعی کہلانے کا بطور مذہب رواج تھا۔ تلمذ اور استفادہ کی وجہ سے بعض مسائل میں اساتذہ کی طرف رجحان تھا اور یہ قدرتی بات ہے اور ہمیشہ رہا ہے، لیکن ان طرق کو بطور مذہب یا بطور سکول فکر چوتھی صدی سے پہلے قبولیت حاصل نہ تھی۔ حضرت استاذ الاساتذہ مولانا سید انور شاہ رحمہ اللہ کے ارشادات گرامی میں عجیب اضطراب ہے۔ فيض الباري(1/167، 301) ملاحظہ فرمائیے، [3] وہ ائمہ حدیث کو ان مختلف سکول ہائے فکر میں تقسیم فرمانا چاہتے ہیں، جن کا رواج چوتھی صدی کے بعد ہوا،
|