Maktaba Wahhabi

320 - 676
شکل میں آئے تھے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے ایک مطالبہ اس وضع میں رکھا جس کا ان کو حق نہ تھا، اس کی پاداش ملی، یہی قدرت کا منشا تھا۔ انبیاء کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں جو عقلِ عام کی رسائی سے بالا ہوتے ہیں۔ جو شخص ان کو عقلِ عام کے پیمانوں سے ناپنا شروع کر دے گا وہ ناکام ہو گا۔ اس کی تسکین اسی صورت میں ہو گی کہ وہ متعلقہ واقعہ کا انکار کرے۔ انبیاء کے معجزات اور ملأ اعلی کے ساتھ ان کے تعلقات یہ عقلِ عام کا مسئلہ نہیں۔ یہاں خواص کی عقلیں بھی حیران رہ جاتی ہیں، لہٰذا اگر طبیعت مطمئن ہو سکے تو شارع کے الفاظ میں ہی اسے قبول فرمائیے ورنہ جو جی میں آئے فیصلہ کیجیے، اسے اگر عقل کی سان پر چڑھایا گیا تو سان ٹوٹے گی، یہ واقعات قائم رہیں گے۔ مؤدبانہ گزارش: مولانا کے ارشادات کا جب یہ مقام سامنے آیا جن میں تین احادیث پر شبہ فرمایا گیا ہے تو مجھے بے حد دکھ ہوا اور مولانا کے ان ارشادات کے متعلق جب کچھ لکھنے کی کوشش کی تو طبیعت رنج اور افسوس کے جذبات سے لبریز ہو گئی، اس لیے قلم رکھ دیا۔ میں نہیں چاہتا کہ مولانا کے احترام کے خلاف نوکِ قلم سے کوئی فقرہ نکل جائے۔ آج مدت کے بعد قلم اٹھایا۔ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جذبات میں آج بھی دکھ اور قلق موجود ہے۔ افسوس ہے کہ اتنی پوزیشن کے لوگ کس بے پروائی سے سنت کے متعلق جو منہ میں آئے کہہ جاتے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی ناخوشگوار لفظ قلم سے نکلا تو صمیمِ قلب سے اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ مقصد طعن و تشنیع نہیں۔ اس دورِ فتن میں سنت اور علومِ نبویہ کے خلاف ایسے الفاظ فی الواقع ناگوار ہیں۔ مولانا پر طنز قطعاً مقصود نہیں۔ سنت کے ساتھ محبت اور قلب کا سنتِ رسول سے ربط ان پریشان خیالات کے اظہار کا موجب ہوا۔ گفتگوئے عاشقاں در بابِ رب جذبہ عشق است نے ترکِ ادب [1] مولانا کے ارشادات کے بعض حصص اور مودودی صاحب کا ’’مسلک اعتدال‘‘ قطعاً اس
Flag Counter