ادھار طلب کرنا:
پہلے بھی اور یہاں بھی عمادی صاحب نے بہت زور دیا ہے کہ مانگنا عزت نفس کے منافی ہے، ممکن ہے یہ کسی حد تک درست ہو، لیکن غریب معاشروں میں کام ہی عاریت پر چلتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، تو درع گروی تھی اور وہ بھی یہودیوں کے پاس۔ [1] زندگی میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ قرض لیا۔ اب بڑے بڑے سرمایہ دار بنک کے مقروض ہیں، حکومتیں مقروض ہیں۔ اسے ’’أبغض الحلال‘‘ کہیے، مگر ہے حلال۔ آپ کے پاس وضع کی مشین موجود ہے، ان احادیث کو موضوع کہہ دیجیے، اہل علم تو سوچے بغیر یہ جرأت نہیں کر سکتے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہار اپنی بہن سے لیا ہے، یہاں عزت نفس کا سوال حماقت ہے۔ عزیز و اقارب میں یہ سلسلہ کبھی معیوب سمجھا ہی نہیں گیا، عمادی صاحب شاید آسام یا افریقہ کے جنگلوں میں رہتے ہوں گے!
پھر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ہار جہیز میں ملا تھا، یہ کوئی بحث نہیں۔ ہار متعدد ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہار اصلاح کے لیے یا زیتون سے دھونے کے لیے دیا ہو، کیونکہ جزع کا ہار زیتون میں صاف کیا جاتا ہے۔ یہ یہاں بے ضرورت بحث ہے، مستعار والی روایت بخاری کی ہے۔
اس کے بعد صفوان بن معطل ابو داود [2] کی روایت کی تضعیف کے متعلق بے ضرورت بحث چھیڑ دی ہے۔ اگر ’’الصحابه كلّهم عدول‘‘ بطور اصول اہل سنت درست ہے، تو یہ بحث بے سود ہے۔ اگر آپ اس اصول کو قبول نہیں فرماتے اور روافض اور خوارج کی طرح آپ ان پر تنقید درست سمجھتے ہیں، تو پہلے اسی اصل پر بحث فرمائیے، پھر ابو داود کی حدیث پر بحث ہو سکے گی۔
جہاں تک عمادی صاحب کے شبہات کا تعلق ہے، ان پر روایتاً اور درایتاً بحث ہو چکی ہے۔
’’کسر رہ گئی!‘‘
عمادی صاحب کا مضمون ’’قصہ افک‘‘ کے متعلق جو کچھ تھا، وہ آپ کے سامنے ہے، لیکن
|