’’طلوع اسلام‘‘ کے ادارہ میں کوئی صاحب فرماتے ہیں: عمادی صاحب کے شاہکار میں کسر رہ گئی۔
وہ فرماتے ہیں:
’’لیکن جب تک روایت کا باقی حصہ سامنے نہ لایا جائے، اس سازش کی گہرائی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔‘‘
اب یہ حضرت گہرائی کی پیمائش کے لیے تشریف لائے ہیں۔ یہ پیمائش تقریباً پانچ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ حضرت قرآنی تعلیمات سے بے خبر اور ذہانت سے خالی معلوم ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’سورہ نور میں تہمت کی سزا اسّی درے مقرر کی گئی ہے اور ایسے شخص کی شہادت مقبول نہیں۔ الزام کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہو گی۔ معلوم ہوتا ہے مدینہ میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا تھا اور یہ ہدایات اسی واقعہ کو سامنے لا کر دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا واقعہ (معاذ اللہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کسی کے متعلق ہوتا، تو قرآن اس کا بیان تصریحاً کرتا۔‘‘ (ص: 55 مختصراً)
قرآن عزیز نے یہاں پر عام حکم فرمایا ہے، جس میں ازواج مطہرات اور ’’الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ‘‘ برابر شامل ہیں:
﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً ﴾ (النور: 4)
’’جو پاکباز عورتوں پر تہمت تراشی کریں اور چار گواہ مہیا نہ کر سکیں، تو اس کو اسّی کوڑے لگائیں جائیں۔‘‘
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (22/23) [1]
’’جو لوگ بے خبر پاکباز مومن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ہے اور بہت بڑا عذاب۔‘‘
|