علامہ طلوعی فرماتے ہیں کہ
’’مدینہ میں کوئی واقعہ ہوا ہو گا، لیکن ازواج مطہرات سے اس کا تعلق نہیں۔‘‘
سمجھ میں نہیں آتا کہ ’’طلوع اسلام‘‘ کا منشا کیا ہے؟ ظاہر ہے قرآن حکیم نے تہمت تراش حضرات کے خلاف ملک کے شرفاء کو ایک قانونی تحفظ دیا ہے۔ قرآن کے عمومی قانون کا منشا یہ ہے کہ
’’یہ تحفظ خاندان نبوت اور تمام شرفاء مسلمین کے لیے برابر ہے۔‘‘
کیا ’’طلوع اسلام‘‘ کا منشا یہ ہے کہ خاندان نبوت اس تحفظ سے مستثنیٰ ہے؟ ان کے خلاف منافقین کو حق ہے کہ وہ تہمت تراشی کریں اور ان مقدس انسانوں کو بدنام کریں؟ خیال یہ ہے کہ کوئی شریف آدمی یہ مفہوم پسند نہیں کرے گا۔
قصہ افک میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ خاندان نبوت کے ایک مقدس فرد کو ایسے آبرو باختہ افراد سے سابقہ پڑا، قانون نے مقدور بھر اس کی حمایت کی، اپنے آدمیوں کو بھی سزا سے مستثنیٰ نہیں کیا، عبداللہ بن ابی (منافق) کو اتنا گندہ کیا کہ قیامت تک اس پر لعنتیں برستی رہیں گی۔ اس استثناء کا معنی یہ ہو گا کہ آپ حضرات کی ہمدردیاں عبداللہ بن ابی کے ساتھ ہیں۔ عقیدتاً وہ آپ سے قریب ہے!
مقام نبوت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حجیت سے وہ بھی گھبراتا تھا اور آپ بھی اس سے پریشان ہوتے ہیں۔ ﴿رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا﴾ (النساء: 61) یا پھر آپ یہ چاہتے ہوں گے کہ خاندان نبوت پر دشمنوں کی طرف سے بھی کوئی الزام نہ آئے، ان کی آبرو دنیا میں چاند کی طرح صاف ہو۔ لیکن یہ آرزو قطعی غیر دانشمندانہ ہے۔ دشمنوں کی زبانوں پر کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟
قصہ افک میں تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ ہے، تمام انبیاء علیہم السلام پر ان کے مخالفین نے مختلف تہمتیں لگائیں۔ ساحر، کاہن، شاعر، مجنون، کذاب، مفتری ایسے ایسے الزام لگائے گئے۔ اسے کون روک سکتا ہے؟
آپ کی عقلمندی یہ ہے کہ آپ منافقین کی زبانیں تو روک نہ سکے، آپ نے حقائق کا انکار کیا،
|