Maktaba Wahhabi

279 - 676
موضوع پر ہم ایک دوسرے کو قریب سے سمجھ سکیں۔ ’’مسلک اعتدال‘‘ آج سے کئی سال پہلے بھی پڑھا تھا، اب پھر پڑھا ہے۔ اس میں نہ کوئی علمی اور فنی خرابی ہے اور نہ کوئی اصلاحی نکتہ۔ مولانا اصلاحی نے کئی سال کے بعد اس کی نوک پلک کچھ درست فرمانے کی کوشش فرمائی ہے۔ قصورِ علم کے اعتراف کے ساتھ عرض ہے کہ اس میں بھی اطمینان کا کوئی سامان نہیں اور بے حد مناسب ہو گا اگر یہ بے مقصد مضمون ’’تفہیمات‘‘ سے بالکل قلم زن کر دیا جائے۔ حدیث اور سنت: ائمہ حدیث اور فقہاء رحمہم اللہ نے حدیث اور سنت کو خاص معنی میں بھی استعمال فرمایا ہے، لیکن جہاں وہ اصول اور اَدلہ کا ذکر فرماتے ہیں، وہ انہیں ہم معنی اور مترادف سمجھتے ہیں۔ عنوان اور ابواب میں تو بعض اوقات ’’خبر‘‘ کا لفظ بھی استعمال فرماتے ہیں جو ان دونوں سے عام ہے، مگر مقصد وہی ہوتا ہے جسے عرف عام میں سنت یا حدیث کہا جاتا ہے۔ منکرینِ حدیث اس معنی سے حدیث کا انکار کرتے ہیں اور سنت پر جرح اور اعتراض کرتے ہیں۔ اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کی مختصرات اور مطولات پر ایک نظر ڈالیے، وہ ان الفاظ کے مصطلح مفہوم میں نہ سکیڑ پیدا کرتے ہیں نہ اپنے موقف سے انحراف۔ – شكر اللّٰه مساعهم – لیکن مولانا اصلاحی صاحب نے سنت کا مفہوم بالکل سکیڑ دیا ہے۔ سنت – ائمہ سنت کی نظر میں: (1) ”السنة، وهي تطلق علي قول الرسول عليه السلام و علي فعله، والحديث مختص بقوله“ (تلويح علي التوضيح، ص: 30، طبع نول كشور) (2) ”يطلق لفظ السنة علي ما جاء منقولا عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير“ (أصول الفقه للخضري، ص: 257) (3) ”السنة في عرف المحدثين و جمهور أهل الشرع، كل ما صدر عن الرسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير، سواء صدر عنه باعتباره رسولا أم باعتباره إنسانا من البشر“ (فقه الإسلام حسن أحمد خطيب، ص: 69) (4) ”السنة: أما شرعا فهي قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و فعله و تقريره“ (حصول المأمول، ص: 22) (5) ”أما السنة: فتطلق في الأكثر علي ما أضيف إلي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير، فهي مرادفة للحديث عند علماء الأصول“ (توجيه النظر للجزائري، ص: 3)
Flag Counter