منتخب نمائندوں کو ان چند ہزار آدمیوں کی ضروریات سے تعلق ہے اور بس۔ یا اسلام ایک دفتر ہے جس میں چند بابو صاحبان کام کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ وہ اس دفتر کے رفقاء کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اسلام بلحاظ نظامِ زندگی یا بلحاظِ نظامِ انسانیت نہ پہلے حضرات کی نظر میں تھا نہ یہ بابو حضرات ہی پوری دنیا کی دینی اور معاشی زندگی اپنے سامنے رکھتے ہیں۔
مولوی عبداللہ اور ان کے ہم قرن رفقاء کی ناکامی اور غلط روی پر تو اتفاق ہے۔ ہم ان کو پہلے ہی غلط سمجھتے تھے، اب یہ ان کے ہم مسلک حضرات بھی ان کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس وقت نہ تو وہ ترجمۃ القرآن درست ہے، نہ وہ تشریحات صحیح ہیں، جو مولوی عبداللہ، مولوی رمضان، مولوی حشمت علی، سابق منکرین حدیث کے متنبی محبوب شاہ آف گوجرانوالہ نے کیں۔ نہ وہ نماز درست ہے جس پر ان سابقون اولون کے قریب قریب پچاس سال صرف ہوئے، نہ مولوی احمد دین صاحب امرتسری کی ’’بیان القرآن‘‘ ہی کوئی ایسا علمی ذخیرہ ہے جس سے وقت کی ضروریات کا حل تلاش کیا جا سکے۔ اب ان تمام مشکلات کا حل ان بابو صاحبان کی نظر میں صرف مرکز ملت ہے اور اس کے لیے الیکشن۔
مرکز ملت کی مشکلات:
ہمارے سامنے مرکز ملت کے مرتبین کی کوئی ایسی مکمل تحریر نہیں جس سے اس کی پوری حقیقت معلوم کی جا سکے، نہ ہی ان حلقوں سے، جہاں تک ہمارا علم ہے، کوئی ایسا دستور اور منشور شائع ہوا ہے جس سے مرکز ملت کا مفصل پروگرام اور طریق عمل معلوم ہو، نہ اس دستوری حیثیت کا کوئی مرقع ہماری نظر میں ہے جسے نئے منکرینِ سنت کی ذمہ دار جماعت نے شائع کیا ہو۔ اس لیے ہماری تنقیدی گزارشات اس کی امکانی یا متحمل مشکلات کے متعلق ہوں گی۔
(1) مرکز ملت کی تشکیل اگر عوام کے نمائندے کریں اور وہ نمائندے بھی قرآن فہمی میں عوام ہی کی طرح ہوں تو یہ مرکز ملت جہلاء کا مجموعہ ہو گا، جیسے کہ ہم کونسلوں، اسمبلیوں اور یونیورسٹیوں کے نمائندوں کو دیکھتے ہیں۔ وہ بے چارے پارٹی کے نقطہ نظر سے ہاتھ اٹھانے کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ یہ مرکز ملت فقہ، تفسیر، استدلال اور اجتہاد کے لیے قطعی بے سود بلکہ مضر ہو گا۔
(2) اگر نمائندوں کے لیے کچھ قیود اور پابندیاں ضروری ہوں تو قطع نظر اس سے کہ وہ عوام کے نمائندے نہیں ہوں گے، عوام اپنی لاعلمی کی وجہ سے ان کے علمی مقام کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ اس
|