Maktaba Wahhabi

125 - 676
لیے یہ ووٹ بالکل غلط استعمال ہو گا، جیسے سیاسی انتخابات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ عوام ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم نے بارہا دیکھا ایک عالم اور قانون دان کے بالمقابل عوام نے ایسے شخص کو ووٹ دیا جو اپنے دستخط نہ کر سکتا تھا۔ (3) غالباً فرمایا جائے گا کہ انتخاب کا حق قرآنی معاشرہ کو دیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآنی معاشرہ کہاں سے آئے گا اور کب تک دنیا اس کا انتظار کرے گی؟ نظر بظاہر اگر موجودہ علماء کی مخالفت کوئی حکومت بزورِ شمشیر آج ہی ختم کر دے تو بھی دو سال تک قابلِ اعتماد قرآنی معاشرے کا بروئے کار آنا قریب قریب ناممکن ہے۔ گویا یہ تجویز اپنی زندگی سے پہلے ہی آغوشِ قبر کی زینت ہو گی۔ (4) اس کے ساتھ ہی دنیا کو اب تک انتخاب کا کوئی ایسا طریقہ نہیں مل سکا، جس سے بالکل صحیح اور اہل نمائندوں کا انتخاب عمل میں آ سکے۔ دنیا کے معاملہ میں تو عملی کمزوری قابلِ برداشت ہو سکتی ہے، لیکن دین کے معاملہ میں کیونکر اسے برداشت کیا جائے گا؟ نالائق اور بدقماش بندے مرکز ملت کی مسند پر قابض ہوں اور بفجوائے حدیثِ پاک: ((فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‏)) [1]جاہل اپنی جہالت سے اپنی اور عوام کی تباہی و بربادی کا موجب بنیں۔ جب دین میں احتیاط کا یہ عالم ہو کہ احادیث اس لیے ناقابلِ عمل ہوں کہ وہ اصطلاحی طور پر ظنی ہیں اور یہ مجسم اور حقیقی وہم صرف اس لیے قبول کر لیے جائیں کہ انہیں چند جاہلوں نے چند ووٹوں کی کثرت سے چند کرسیاں سپرد کر دی ہیں۔ انتخاب اور جمہوریت عملاً جس طرح تمام ممالک میں ناکام ہوں رہے ہیں، ممکن ہے یہ عملی ناکامی نظریاتی ناکامی پر منتج ہو اور دنیا کسی اور نظریہ کی تلاش میں چل نکلے۔ پھر ہمارے یہ جمہوریت پرست منہ اٹھا کر دنیا کو دیکھنے لگیں۔ (5) پھر علی علاتہٖ اگر اتفاقاً کبھی چند سال کے لیے ایسا معاشرہ میسر آ جائے جو واقعی علمی طور پر صحیح اور اہل ہو تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ جو سوچیں وہ درست اور صحیح بھی ہو؟ اور لوگ اس کے کیوں پابند ہوں اور ان کے اجتہاد کو دین اور شریعت کا مرتبہ کیوں دیں؟ اس لیے کہ سابق مجتہدین
Flag Counter