’’ایسی جامع صحیح جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سیرت بیان کی گئی ہے۔‘‘
اس معنی کے لحاظ سے سنت اور حدیث ہم معنی ہیں، بلکہ قرآن بھی سنت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’كَانَ خُلقُه القرآنَ ‘‘[1]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بنیاد قرآن پر تھی۔‘‘
فہم قرآن میں جو مقام صاحب قرآن کو حاصل تھا، دوسرا اس کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔ قرآن عزیز کے مطالب کی عملی صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں پائی جاتی ہے، اس لیے مولانا تمنا صاحب کا یہ فرمانا کہ
’’حدیثیں اگر دین کے لیے ضروری ہوتیں، تو ضرور قرآن کی طرح لکھوائی جاتیں۔‘‘
تعارض کے علاوہ قطعاً غلط ہے۔
سنت کا استعمال:
لفظ سنت کے مختلف استعمال میں نے اختصار سے عرض کر دیے ہیں۔ مولانا عمادی نے سنت کے معنی میں رواج کی اہمیت کو نمایاں کرنے کی کوشش فرمائی ہے، وہ اس انداز سے اس میں تواتر کی روح ظاہر فرمانا چاہتے ہیں۔ حدیث پر بے اعتمادی، رواۃ پر بدگمانی اور ائمہ حدیث سے سوءِ ظن کے بعد رواج اور دستور کا سہارا لیا گیا ہے، اور اس کا امتداد زمانہ فاروقی تک رکھا ہے۔
اولاً ایسی تحدیدات تاریخی خیالات سے نہیں کی جاتیں، اس کے لیے صریح نص کی ضرورت ہے، قرآن یا سنت متواترہ سے اس کا مرتبہ کم نہ ہونا چاہیے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی ساری مملکت میں حال برابر نہیں تھا، کوفہ، بصرہ، شام اور نو مفتوحہ علاقے مصر وغیرہ مقامات کے رواجات مختلف تھے۔ معلوم نہیں مولانا کس دستور اور کون سے رواج کو استناد کا شرف بخشیں گے؟ اچھا ہو کہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرح مدینہ کا تعامل حجت مان لیں۔
مقام حدیث اور مقام نبوت:
حدیث کے طریقِ حفاظت پر بحث کرنے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ حدیث ہے کیا
|