پابندی نہ کریں اور عقل و درایت کی تنقید سے وہ کیوں بچیں؟ اصول سب کے لیے اصول ہے۔
عقل اور احتمالات کے گھوڑے اگر اسی طرح سرپٹ دوڑانے شروع کر دیں جس طرح سنت اور حدیث کے خلاف ان کی لگامیں ڈھیلی کر دی گئی ہیں تو ان کی یورش سے نہ خدا بچے گا نہ رسول، نہ کوئی حقیقت محفوظ رہے گی نہ کوئی اصول۔ خود بے چارے ابلیس کا کیس اسی نوعیت کا تھا۔ معمولی سی عقل و درایت کی گرفت سے ہمیشہ کے لیے مطرود اور جلا وطن کر دیا گیا ہے۔ اپیل کے لیے بھی اسے کوئی موقع نہیں دیا گیا ۔۔!
سازش کہاں کہاں؟
اب سازش کے ان مریضوں سے گزارش ہے کہ آپ کا کیس خراب ہو چکا۔ آپ کو آج سے چند صدیاں پہلے ہونا چاہیے تھا۔ پھر ضروری تھا کہ کسی پولیس کے ہم رنگ محکمہ میں ملازمت کرتے اور ایسے انداز کے آفیسر آپ کو مل جاتے تو ممکن تھا آپ کا کیس کمزور بھی ہوتا تو فیصلہ آپ کے حق میں ہو جاتا۔ یورپین مکتشفین کی شہادتیں آپ کے حق میں ہوتیں۔ آپ کو سازش اس وقت سوجھی جب اس کا وقت گزر چکا۔ فن کی تکمیل اور ملزموں کی موت پر صدیاں گزر چکیں۔ آپ نے تیرہ صدیوں کے بعد صرف حدیث کے متعلق سازش کا احساس کیا، مگر سازش ساری علمی دنیا میں اپنا جال بچھا چکی ہے۔ قرآن مجید کا تواتر لفظی جس پر آپ حضرات اترا رہے ہیں، وہ بھی عجمی اثرات سے محفوظ نہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ قرآن کا معنی اور مفہوم تو تواتر نہیں۔ الفاظ متواتر ہیں۔ اختلافِ قراءات کے باوجود قرآن متواتر ہے۔ یہ قراءت اور فنِ تجوید ہم تک قراء سبعہ کی معرفت پہنچا اور ان کی اکثریت عجمی ہے۔ دیکھا آپ نے کہ جس تواتر پر آپ کو ناز ہے اس کی کلید عجمیوں کے ہاتھ میں ہے۔۔!
قراء سبعہ:
(1) عبداللہ بن کثیر مکی 120ھ۔
(2) نافع بن عبدالرحمان مدنی 169ھ۔
(3) عبداللہ بن یزید بن تمیم ابن عامر 118ھ۔
(4) ابو عمرو بن علاء المقری البصری 154ھ۔
|