Maktaba Wahhabi

114 - 676
نے تو شاہد اسی کو کہا ہے جس میں شہادت کی فقہی شروط پائی جائیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں معجزہ اور کرامت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں! قرآن عزیز میں اور بھی ایسے واقعات ہیں جن پر بحث کی گنجائش ہے اور آج کا قانونی مزاج اس پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اس دور کے قانون پیشہ اور جج یقیناً محسوس کریں گے کہ ان پر مرافعہ اور نظرثانی کی کافی گنجائش ہے۔ امکان اور درایت کے ہتھیاروں سے قرآن پر بھی حملہ کیا جا سکتا ہے، جو اہل قرآن کا اصل مقصد ہے۔ حضرت داود علیہ السلام کے پاس بھیڑوں کا کیس پیش ہوا تو حضرت نے ڈگری ایک بھیڑ والے کے حق میں دی اور نوے بھیڑوں والے کے خلاف فیصلہ صادر فرمایا اور مدعا علیہ کا بیان تک نہیں سنا۔ استغاثہ کی کہانی سن کر مستغیث کو ڈگری دے دی۔ [1] ممکن ہے ایک بکری کا مالک ایک کی صحیح نگہداشت ہی نہ کر سکتا ہو۔ مدعا علیہ کا خیال ہو گا کہ وہ ریوڑ میں آ کر زیادہ اور بہتر طور پر پرورش پا سکے گی۔ حضرت داود کا اس کے خلاف بغاوت اور ظلم کا فیصلہ آج کے عدالتی ماحول میں یقیناً مرافعہ کا مستحق ہے اور درایتاً محلِ نظر۔۔! سورہ نون [2] میں باغ والوں کا قصہ مذکور ہے، جو بیچارے سوالیوں کی بھیڑ اور اپنے باغ کی حفاظت اور فائدہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا شکار ہوئے۔ حالانکہ ان کا کوئی جرم نہیں۔ باغ ان کو باپ کی وراثت میں ملا۔ مسکین کو دینا نہ دینا شرعاً مالک کی مرضی ہے۔ پھر اس میں مستحق اور غیر مستحق کی بحث بھی آ جاتی ہے، لیکن ناراضگی میں ان بے چاروں کا باغ برباد کر دیا گیا اور وارننگ تک نہیں دی گئی۔ بےشک یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، لیکن جب عقل و شعور کی فوجیں انسانی حقوق اور عدل و انصاف کی حمایت کے لیے میدان میں آ جائیں تو وہاں حقائق کو کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ اللہ اور رسول کے نام سے ایسے موقع پر اپیل نہیں کی جا سکتی۔ عقل و شعور کے مفتی کو بہرحال اپنا فتویٰ صادر کرنے کا حق ہے۔ اس کا اثر خدا پر پڑے یا اس کے رسول پر۔ آخر انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے تقاضے بھی تو انہیں کے بنائے ہوئے اور بتائے ہوئے ہیں۔ پھر وہ کیوں اس کی
Flag Counter