Maktaba Wahhabi

226 - 676
علم المطاعن: اس فن میں ان اعتراضات اور مطاعن کا جواب دیا گیا ہے، جو بدعتی فرقوں کی طرف سے احادیث پر وارد کیے جاتے ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ایسی حرکات قرامطہ اور روافض کی طرف سے ہوتی رہیں۔ اہل علم نے اس باب میں اپنا فرض ادا کیا۔ مشكل الأحاديث للطحاوي اور تأويل مختلف الأحاديث في الرد عليٰ أعداء أهل الحديث لابن قتيبة الدينوري اس فن کی مغتنمات سے ہیں۔ [1] ان کے علاوہ سینکڑوں کتابیں امت نے اس موضوع پر لکھیں۔ شروحِ حدیث میں بہت حد تک اس فرض کو ادا فرمایا گیا۔ فتح الباري، شرح النواوي للمسلم، عون المعبود، نيل الأوطار للشوكاني سے بھی یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔ علم الفقه: کتاب اللہ اور سنت سے اشارتاً یا عبارتاً جو مسائل استنباط کیے جائیں، اسی کا نام فقہ ہے۔ [2] قرآن عزیز اور حدیث کی حجیت میں تو امت نے کبھی شبہ نہیں کیا، لیکن فقہ کی راہیں مختلف رہیں۔ بعض لوگوں نے بعض مخصوص ائمہ کے طریقِ فکر کو پسند کیا اور معلوم ہے کہ طریقِ فکر ایک مخصوص ماحول کی پیداوار ہے۔ ان لوگوں نے اسی ماحول کو ہر زمانہ میں محیط کرنے کی کوشش کی اور اسی طریقِ فکر کو تمام پر لازم کرنا ضروری سمجھا۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اسی مخصوص نظریہ کی پیداوار ہیں۔ ان بزرگوں کے مقلدین نے ضروری سمجھا کہ کتاب و سنت کو اسی ماحول میں سمجھا جائے، جس ماحول میں ان ائمہ رحمہم اللہ نے سمجھا، اس لیے ان بزرگوں نے کچھ اصل وضع فرمائی، یہی اس خاص مذہب کی فقہ قرار پائی۔ اس تخصیص کا جو اثر انقلاب اور تبدیلیِ احوال پر ہو سکتا تھا، وہ ان ائمہ کے اختلافات اور فقہ کی جزئیات کے مختلف احکام سے ظاہر ہے۔ ائمہ حدیث چونکہ ان افکار اور شخصی آراء کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے، اس لیے وہ فہم حدیث میں ان بزرگوں کے افکار و آراء اور ان کے پیش آمدہ ماحول کے پابند نہ تھے، بلکہ وہ احادیث کو اسی ماحول میں اور اسی طریق فکر سے سمجھنے کی کوشش فرماتے تھے، جس ماحول میں
Flag Counter