Maktaba Wahhabi

298 - 676
القول بخبر الواحد، و هٰذا حجة علي من قلد أحدهم في وجوب القول بخبر الواحد‘‘ [1] ’’ائمہ اربعہ اور داؤد ظاہری سب خبرِ واحد کے قول پر متفق ہیں اور یہ ان کے اَتباع پر حجت ہے۔‘‘ متاخرین فقہاء: ابنِ حزم متقدمین ائمہ کے اجماع کا ذکر فرمانے کے بعد متاخرین فقہاء کا ذکر فرماتے ہیں جو معتزلہ اور متکلمین سے متاثر ہو کر خبر واحد کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے تھے اور ظن مصطلح کو حدودِ علم سے باہر سمجھنے لگے۔ امام نے دو اصول پر زور دیا ہے: (1) فرماتے ہیں کہ دین کامل ہے، جیسے آیت ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ (المائدة: 3) سے ظاہر ہے، پھر اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے جو ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾ (الحجر: 9) سے واضح ہے۔ اگر متاخرینِ فقہاء کے خیال کے مطابق کامل دین پر ظنون و اوہام غالب ہو جائیں اور حق اور باطل اس طرح آمیز ہو جائیں کہ امتیاز ناممکن ہو تو حفاظت کا وعدہ کس طرح پورا ہوا؟ کیونکہ ذکر کا لفظ کتاب اللہ اور سنت دونوں پر حاوی ہے۔ پس اگر متاخرین کا خیال مان لیا جائے تو ’’هٰذا انسلاخ من الدين و هدم للدين و تشكيك في الشرائع‘‘ (إحكام: 1/123) ’’اس عقیدے کے بعد انسان دین سے بالکلیہ خارج ہو جائے گا اور دین کی پوری عمارت پیوندِ خاک ہو کر رہ جائے گی۔‘‘ (2) معلوم ہے کہ خبرِ واحد میں تمام شبہات سند کی وجہ سے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اس وقت تک نہ کوئی سند تھی نہ کوئی شبہ، گویا اللہ کی حفاظت یہیں ختم ہو گئی۔ مستقبل کے لیے اللہ تعالیٰ کوئی انتظام نہ فرما سکے، بلکہ وضاع اور دجاجلہ دین پر غالب آ گئے۔ جب ایسا نہیں تو لازماً دین قیامت تک محفوظ ہو گا اور یہ آحاد کی حفاظت سے ہی ہو گا۔ ’’فقد ثبت يقيناً أن خبر الواحد العدل عن مثله مبلغا عن مثله إلي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم حق مقطوع به موجب العمل والعلم معاً‘‘ (إحكام: 1/124) ’’لہٰذا ثابت ہوا کہ حدیث متصل پر عمل واجب ہے اور اس کی صحت بھی یقینی ہے۔‘‘
Flag Counter