Maktaba Wahhabi

129 - 676
قرآن فہمی کے لیے کوئی اصول اور معیار نہ تھا، اس لیے مسئلہ خلط مبحث سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پھر فرمایا گیا: حدیث عقل کے خلاف نہ ہو۔ عرض کیا بالکل درست ہے، لیکن ہم نے صدیوں سے عقلاء کو ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے۔ سارا علم منطق عقلاء کو ٹھوکروں سے بچانے کے لیے بنایا گیا، لیکن وہ علم خود ٹھوکروں کا معمل اور کارخانہ قرار پایا اور ٹھوکریں ختم نہ ہوئیں۔ پھر جو معیار ہنوز کسی اور معیار کا محتاج اور منتظر ہے، اسے موقع دیجیے، وہ اپنی تکمیل کرے۔ موجودہ پوزیشن میں افراد کی عقل چھوڑئیے، مجموعی طور پر عقل جو کچھ کر سکتی ہے، اس سے ائمہ سنت اور فقہائے حدیث نے کب انکار کیا ہے؟ معلوم نہیں پھر آپ حضرات ناراض کیوں ہیں؟ دراصل ہماری معذرت یا ترجمانی بھی آپ حضرات، منکرینِ حدیث اور ادارہ طلوع اسلام سے سنتے ہیں اور ان گونگے دانشوروں کا یہ حال ہے کہ وہ آج تک نہیں سمجھا سکے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ آج تک جو کر سکے وہ سلب تھا اور تخریب۔ تعمیر اور ایجاب کے طور پر وہ کیا کر پائے؟ آنکھیں اب تک اس کی منتظر ہیں۔ فرمایا گیا: حدیث کو متواترات کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ گزارش کیا گیا منظور ہے، لیکن واقعات کی صحت کے لیے آپ کی ریسرچ کی کسوٹی کیا ہے؟ اس کا جواب موت نما خاموشی سے دیا گیا۔ یہ لوگ! یہ گفتگو ان طویل مناظرات اور مجادلات کا ملخص ہے جو مولوی عبداللہ صاحب سے لے کر حضرت مولانا غلام احمد صاحب پرویز تک ان حضرات نے فرمائی، جن میں شاید کوئی ذہین آدمی نہیں۔ اصول کی تشکیل تو بڑی بات ہے، عام فقہی فروع کا استنباط اور استخراج بھی ان حضرات کے فہم سے بالا ہے۔ یہ اعتراض تو کر سکتے ہیں، مگر مصالح پر کلی اور جامع نظر کے بعد جزئیات کا استخراج اور قواعد کلیہ کی تشکیل کی استعداد ان کے خمیر میں نہیں ہے۔ جسٹس محمد شفیع صاحب بڑی اونچی اور مستند جگہ سے بولے تھے۔ خیال تھا کوئی تعمیری اور کام کی چیز فرمائیں گے، لیکن وہ غور فرمائیں کہ ان کی معلومات پرویز صاحب کی ترجمانی اور مولوی محمد علی لاہوری کی نقالی سے زیادہ نہیں اور وہ بھی یک طرفہ! کاش! وہ ائمہ سنت اور ناقدینِ حدیث سے براہِ راست کچھ سنتے، پھر انہیں معلوم ہوتا کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں، وہاں بحمداللہ بہت کچھ موجود ہے، بلکہ اس
Flag Counter