Maktaba Wahhabi

553 - 676
گیا۔ مجھے افسوس ہے ہمارے دوست حدیث کے خلاف لکھتے وقت عموماً جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور فرق حیثیت کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ عفا اللّٰه عنا و عنهم و هدانا و إياهم سواء الطريق! ظن اور اس کا مفہوم: ظن اور اس کے مفہوم کے متعلق میں نے مفصل عرض کیا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ مخاطب محترم نے اس پر مناسب توجہ نہیں فرمائی۔ اگر اپنی تصنیفات کے تعارف میں زیادہ دقت نہ فرماتے، تو اصل موضوع پر زیادہ توجہ فرمائی جا سکتی۔ بذات خود حدیث کی ظنیت کا مسئلہ چنداں اہم نہیں، لیکن حدیث کی مخالفت کے کیمپ میں اس شبہ کو ایک اساسی حیثیت دے دی گئی ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ اس پر مزید غور کیا جائے۔ وضعاً ہر خبر صدق اور کذب کی محتمل ہے۔ ہر گواہ کے متعلق سچ اور جھوٹ کا امکان ہے۔ ہر فیصلہ کے غلط اور صحیح ہونے کا خیال کیا جا سکتا ہے۔ شرعی معاملات، قرآن کی تفسیر اور آیات میں، ان کی مراد کی تعیین میں غلطی اور صحت کے دونوں احتمال ہو سکتے ہیں۔ یہی حال خبر واحد کا ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ روایت صحیح اور درست ہو اور ممکن ہے کہ غلط ہو۔ احتمالات کی دنیا ہمارے پورے ماحول پر محیط ہے۔ اس میں دین کی نہ دنیا کی کوئی چیز مستثنیٰ نہیں، اس کے باوجود دین کے معاملات میں بھی ان ظنون کی وجہ سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی، بلکہ عمل کی درستگی اور کاروبار کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ہم یقین اور وثوق کے لیے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتے ہیں، یہی حال احادیث اور روایات کا ہے۔ ان احتمالات کے باوجود، جو اس راہ میں پیدا ہو گئے ہیں، صحیح، ضعیف میں تمیز ہو سکتی ہے اور احادیث کو بالکلیہ ساقط الاعتبار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس ظن سے مخلصی کے لیے قرائن مل سکتے ہیں۔ ائمہ حدیث کی تنقید، فن رجال کی ضرورت، اصول حدیث، یہ سب ان مشکلات ہی کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ جس طرح ہر خبر فی نفسہ صدق و کذب کی محتمل ہے، اسی طرح ہر حدیث میں غلط اور صحیح کا احتمال ہو سکتا ہے۔ اس احتمال کے باوجود ہم سچی خبروں کو قبول کرتے ہیں، عدالتی شہادتوں میں سچ اور جھوٹ میں تمیز کی صورت پیدا ہو جاتی ہے، قرائن و احوال کی بنا پر یقین کی راہ پیدا کر لی جاتی ہے۔ دنیا میں متواتر خبریں بہت کم ہیں، اسی طرح متواتر احادیث بھی زیادہ نہیں۔ میری گزارشات کا یہی مقصد تھا کہ قرائن کی تشخیص کے بعد ظن کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ آپ قرآن حکیم پر ایک نظر
Flag Counter