’’ذكر‘‘ کا عموم:
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قرآن کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، حدیث کی حفاظت بھی اس کے ذمہ ہے اور آیت: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ۔۔﴾ (الحجر: 9) میں ان دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ [1]
مولانا ماہر القادری صاحب کا خیال ہے کہ ’’ذكر‘‘ میں یہ عموم درست نہیں، ابن حزم کی ذاتی رائے ہے۔ [2]
یہ بحث علمی ہے، مولانا کو اختلاف کا حق ہے۔ اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو حافظ ابن حزم کی رائے معقول اور وزنی معلوم ہوتی ہے بوجوہ:
(1) ظاہر ہے کہ جب حدیث بھی دین ہے اور قرآن عزیز بھی دین ہے، پھر اگر قرآن عزیز کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے لے لی اور حدیث حفاظت سے خارج رہی، تو گویا ایک حصہ کو محفوظ کر دیا گیا اور دوسرا حصہ بالکل ’’غیر محفوظ‘‘ رہا۔ یعنی کچھ دین محفوظ ہو گیا، کچھ غیر محفوظ! اہل قرآن کہہ دیں گے یہ حدیث تو دین ہی نہیں، ورنہ اس کی حفاظت کے لیے ضمانت دی جاتی۔ کتابتِ حدیث کے متعلق بھی ان کے شبہ کی یہی نوعیت ہے۔
(2) لغتِ عرب کے علاوہ قرآن مجید کا خود بھی اپنا لغت ہے، جس میں ’’ذكر‘‘ کا لفظ متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے، مثلاً:
﴿فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ [3] (51/55) کثرتِ ذکر۔
﴿الذِّكْرِ الْحَكِيمِ﴾ [4] (3/58) قرآن عزیز۔
﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [5] (21/7) کتبِ سابقہ۔
|