﴿قَدْ أَنزَلَ اللّٰه إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ﴿١٠﴾ رَّسُولًا﴾ [1] (65/10) آنحضرت بوصف رسالت۔
﴿وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ﴾ [2] (43/44) شرف و برتری۔
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا﴾ [3] (21/48) وحی، نبوت، تورات وغیرہ۔
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ﴾ [4] (21/105) تورات۔
﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ﴾ [5] (2/40) ضد نسیان۔
(3) حدیث ((خمسة رضعات)) [6]سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم احادیث پر قرآن یا کتاب اللہ کا لفظ بھی استعمال فرما لیتے تھے۔
(4) ذكر جب رسول پر بولا جائے، تو رسالت کے تمام لوازم اور خصائص اس میں شامل ہوں گے، اس لیے حدیث بھی اس میں شامل ہو گی۔
(5) حافظ ابن حزم رحمہ اللہ منفرد نہیں۔ ’’صواعق مرسله‘‘ میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ان حضرات کے دلائل کا ذکر فرمایا ہے جو حدیث کو مفید علم سمجھتے ہیں۔ اس میں ضمناً آیت: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ کا ذکر فرمایا ہے، پھر ارشاد ہوتا ہے:
’’قالوا: فعلم أن كلام رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم في الدين كله وحي من عنداللّٰه ، وكل وحي من عنداللّٰه فهو ذكر أنزله اللّٰه ۔۔ الخ‘‘ (صواعق مرسله: 3/371، 372)
یعنی دین سب وحی ہے اور ہر وحی ذکر منزل من اللہ ہے۔
|