حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مصراۃ کے متعلق حدیث ان حضرات کی نظر میں آ گئی، [1] ورنہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی تلاش میں حجاز کے پہاڑ چھان مارتے، نماز کی جگہوں کے ساتھ پیشاب کے مواقع کا بھی تتبع فرماتے، ان کی فقہ پر کوئی حرف نہیں آیا، حالانکہ یہ مواقع نہ عبادات تھے نہ عادات، بلکہ محض اتفاقات تھے، لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیچارے حدیث مصراۃ کی وجہ سے ہر اصول فقہ کے طالب علم کی زبان پر ان کے غیر فقیہ ہونے کا وظیفہ جاری ہے۔ [2] وليس ذلك إلا من آفات التقليد والجمود!
فقہ راوی کی شرط اور اکابر حنفیہ:
ہمارے مدارس کا یہ حال ہے کہ وہ فقہ راوی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں، جیسے کسی آیت کا مفہوم بیان فرما رہے ہیں یا کوئی متواتر حدیث، حالانکہ قدماء احناف کے ہاں اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ وہ نقد روایت یا ترجیح میں اس شرط کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے۔ ’’اصول بزدوی‘‘ میں فقہ راوی کا ذکر فرماتے ہوئے مثال کے طور پر دو غیر فقیہ بزرگوں کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت
|