ابن قیم فرماتے ہیں:
’’جو لوگ خبرِ واحد سے علم کی نفی کرتے ہیں وہ معتزلہ اور بدعتی فرقوں سے متاثر ہیں۔ بعض فقہاء اور ائمہ اصول بھی ان سے متاثر ہیں، لیکن سلفِ امت میں ان کا کوئی پیشرو نہیں۔ ائمہ سنت: امام شافعی، امام مالک، امام احمد، امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور ان کے تلامذہ، امام داود، امام ابن حزم، حسین بن علی کرابیسی وغیرہ نے فرمایا کہ خبرِ واحد سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے پاس کسی آدمی کا ذکر ہوا جو کہتا تھا کہ خبرِ واحد سے عمل واجب ہوتا ہے لیکن علم حاصل نہیں ہوتا۔ امام نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا: میں نہیں جانتا یہ کیا بلا ہے؟‘‘ (صواعق: 2/362)
اس سے ظاہر ہے ائمہ اربعہ اور قدماء اس مسئلہ میں اہلِ حدیث کے ساتھ ہیں۔ خبرِ واحد پر بدگمانی اس وقت پیدا ہوئی جب متکلمین اور فلاسفہ نے اسلامی عقائد پر یورش کی اور متاخرین اس سے متاثر ہو گئے۔
وجدان اور شعور:
علم اور یقین کا مسئلہ بہت حد تک وجدانی ہے۔ اس معاملہ میں صرف تعداد ہی نہیں، رجال کے اوصاف بھی موثر ہوتے ہیں۔ زہد و تقویٰ کی کمی کے باوجود جب ہم با اخلاق اور متدین آدمی سے کوئی خبر سن لیں تو ہم اپنے دل میں بہت زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ عامی یا غیر متدین آدمی متعدد بھی ہوں تو دل میں وہ یقین پیدا نہیں ہوتا، مگر رواۃ کے اوصاف اور دوسرے قرائن سے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔ تعجب ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے عام فرقوں کی طرح خبرِ واحد کی ظنیت کا وظیفہ شروع فرما دیا، حالانکہ دینی جماعتوں کا طریقِ فکر، بدعی فرقوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ تعجب ہے جس جماعت کی دعوت اقامتِ دین ہو، وہ رواۃِ حدیث کا عام خبروں کے روات سے موازنہ کرے۔ اعتزال و تجہم کے مغالطہ سے متاثر ہو جائے اور پھر اس کا اظہار ایسے وقت میں کرے جب ملک میں اہلِ بدعت احادیث اور سنن کے خلاف ایک شور برپا کر رہے ہوں۔ حالانکہ اہلِ دیانت کی وجدانی کیفیت کو اہلِ دیانت ہی سمجھتے ہیں، اہلِ بدعت کے لیے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ ائمہ حدیث اس وجدان اور شعور کو اچھی طرح جانتے تھے، انہوں نے اوصافِ رواۃ اور موافق قرائن اور مخالف اثرات کو ذہن میں رکھ کر فرمایا:
|