Maktaba Wahhabi

302 - 676
عصمت پر تو غور فرمانا چاہیے۔ امت کی تلقی ائمہ حدیث اور اہلِ حدیث کے نزدیک بے حد مضبوط قرینہ ہے۔ تلقی بالقبول اور احادیثِ صحیحین کے افادہ یقین کے متعلق ’’دراسات اللبيب‘‘ میں نہایت نفیس اور مبسوط بحث موجود ہے، جسے طوالت کی وجہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اہل تحقیق کے لیے وہ بحث بہت مفید ہو گی۔ [1] متاخرین میں مولانا سید انور شاہ رحمہ اللہ دقتِ نظر اور وسعتِ معلومات میں یگانہ روزگار تھے۔ بخاری کے حاشیہ میں فرماتے ہیں: ’’حاصله أنه يفيد القطع إذا احتف بالقرائن، كخبر الصحيحين علي الصحيح، بيد أنه يكون نظريا، و نسب إلي أحمد أن أخبار الآحاد تفيد القطع مطلقا‘‘ (فيض الباري: 4/506) ’’حاصل یہ ہے کہ خبرِ واحد میں اگر قرائن موجود ہوں تو اس سے علم یقینی و نظری حاصل ہو گا۔ امام احمد سے منقول ہے کہ اس سے قطعیت کا فائدہ حاصل ہو گا۔‘‘ دراصل یہ اختلاف قرائن کے قوت اور ضعف پر موقوف ہے۔ اس اختلاف کا پسِ منظر: انسان ماحول کا غلام ہے۔ معتزلہ اور ائمہ کلام اور دوسرے بدعتی گروہوں کا تعلق عموماً شاہی درباروں سے رہا۔ عباسی دربار تو ان مناظرہ بازیوں میں مشہور تھے۔ وہاں یہ سب کچھ فتح و شکست اور دفتری اقتدار کے لیے ہوتا تھا۔ ان حالات میں سخن سازی، غلط گوئی، ہر چیز جائز سمجھی جاتی تھی، تاکہ دربار میں اعزاز حاصل ہو۔ ایسے وقت میں پارٹی بازی لازمی ہے اور جھوٹ سے پرہیز ناممکن۔ فرد تو فرد ہے، جماعتیں غلط بیانی کرتی ہیں۔ اس ماحول میں خبرِ واحد پر اعتماد کون کرے اور کیوں کرے؟ اس معاملہ میں معتزلہ اور متکلمین معذور ہیں۔ ائمہ حدیث کی بے نیازی: ائمہ حدیث کا ماحول اس سے بالکل مختلف تھا۔ درباروں سے بے نیاز، بادشاہوں سے نفرت، ہر چیز اللہ کی رضا اور دین کی خدمت کے لیے۔ ابن قیم نے فرمایا:
Flag Counter