ٹھوس دلیل کی ضرورت:
منکرین حدیث نے ایک تہمت کا دعویٰ کیا ہے، اس کے ثبوت میں وقت اور اشخاص کے تعین کے لیے قطعی شہادت ضروری ہے، ہوا میں پتھر مارنے سے دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ تہمت بھی ان لوگوں پر لگائی گئی ہے، جن کی صداقت آج کل کی ہزار در ہزار صداقتوں پر بھاری ہے۔
میں سائل محترم سے دریافت کرتا ہوں کہ ان بدگمانیوں کے باوجود جو آپ کو امیر المحدثین امام بخاری پر ہیں، اگر آج امام بخاری کسی معاملہ پر شہادت دیں اور اس کے خلاف مسٹر غلام احمد پرویز یا خلیفہ عبدالحکیم شہادت دیں، آپ کا عدالتی ذہن کس کو ترجیح دے گا؟
میں یقین کرتا ہوں کہ اگر سائل محترم عباسی خلافت کے مختلف ادوار پر ایک تاریخ کے طالب علم کی طرح غور فرمائیں، تو آپ کو یقین ہو گا کہ بحمداللہ اس تہمت کے عام اجزاء واضح ہو چکے ہیں۔
وطنیت کا قانون:
سائل محترم نے امام بخاری کے تذکرہ میں فرمایا:
’’مختصراً امام بخاری دراصل ایرانی تھے‘‘۔
یہ درست ہے کہ امام بخاری 13 شوال 194ھ کو بخارا میں پیدا ہوئے، والد کا انتقال ہوا، بڑے بھائی احمد اور امام صاحب والدہ کے ہمراہ حج کے لیے تشریف لے گئے، احمد اور والدہ واپس آ گئے، امام صاحب وہیں رہے۔ دس سال کی عمر میں حفظ حدیث کا مشغلہ اختیار فرمایا۔[1]
سولہ سال کی عمر میں ابن مبارک اور وکیع کے علمی ذخائر ضبط کر لیے اور اصحاب الرائے کے نظریات میں بھی مہارت پیدا کر لی۔ اس اثنا میں بھی یمن، شام، مصر، اور جزیرہ کا دو دفعہ سفر کیا۔ ’’قضايا الصحابة‘‘ اور ’’تاريخ‘‘ ایسی مفید کتابیں لکھیں۔ امام ابن راہویہ کے مشورہ سے ’’الجامع الصحيح‘‘ کی تسوید شروع فرمائی۔ [2] غرض اس کے بعد بخارا کی سکونت اختیار نہیں فرمائی۔ یہی حال عموماً باقی حضرات اصحاب صحاح کا رہا، ساری عمر سیاحی اور بادیہ پیمائی میں گزری۔ عموماً ائمہ حدیث نے درس و تدریس کے لیے عرب میں ڈیرے ڈال دیے، کوئی ایرانی ان کے پاس
|